‌صحيح البخاري - حدیث 2305

كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابٌ: وَكَالَةُ الشَّاهِدِ وَالغَائِبِ جَائِزَةٌ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِنٌّ مِنْ الْإِبِلِ فَجَاءَهُ يَتَقَاضَاهُ فَقَالَ أَعْطُوهُ فَطَلَبُوا سِنَّهُ فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ إِلَّا سِنًّا فَوْقَهَا فَقَالَ أَعْطُوهُ فَقَالَ أَوْفَيْتَنِي أَوْفَى اللَّهُ بِكَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2305

کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان باب : حاضر اور غائب دونوں کو وکیل بنانا جائز ہے ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا توآپ نے ( اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے ) فرمایا کہ ادا کردو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہیں ملا۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا ( مل سکا ) آپ نے فرمایا کہ یہی انہیں دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کردیتے ہیں۔
تشریح : مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔ اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہل جزاءالاحسان الا الاحسان ( الرحمن : 60 ) کے تحت ہے مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔ اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔ بلکہ وہ ہل جزاءالاحسان الا الاحسان ( الرحمن : 60 ) کے تحت ہے