‌صحيح البخاري - حدیث 2300

كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابُ وَكَالَةِ الشَّرِيكِ الشَّرِيكَ فِي القِسْمَةِ وَغَيْرِهَا صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَاهُ غَنَمًا يَقْسِمُهَا عَلَى صَحَابَتِهِ فَبَقِيَ عَتُودٌ فَذَكَرَهُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ضَحِّ بِهِ أَنْتَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2300

کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان باب : تقسیم وغیرہ کے کام میں ایک ساجھی کا اپنے دوسرے ساجھی کو وکیل بنا دینا ہم سے عمرو بن خالد نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید نے، ان سے ابوالخیر نے اور ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ بکریاں ان کے حوالہ کی تھیں تاکہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں ان کو تقسیم کردیں۔ ایک بکری کا بچہ باقی رہ گیا۔ جب اس کا ذکر انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اس کی تو قربانی کرلے۔
تشریح : اس سے بھی وکالت ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آسکے تو اس کی اپنے موکل سے تحقیق کرلے۔ اس سے بھی وکالت ثابت ہوئی اور یہ بھی کہ وکیل کے لیے ضروری ہے کہ کوئی بات سمجھ میں نہ آسکے تو اس کی اپنے موکل سے تحقیق کرلے۔