‌صحيح البخاري - حدیث 2299

كِتَابُ الوَكَالَةِ بَابُ وَكَالَةِ الشَّرِيكِ الشَّرِيكَ فِي القِسْمَةِ وَغَيْرِهَا صحيح حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ ابْنِ أَبِي نَجِيحٍ عَنْ مُجَاهِدٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَمَرَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَتَصَدَّقَ بِجِلَالِ الْبُدْنِ الَّتِي نُحِرَتْ وَبِجُلُودِهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2299

کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان باب : تقسیم وغیرہ کے کام میں ایک ساجھی کا اپنے دوسرے ساجھی کو وکیل بنا دینا ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے ابن ابی نجیح نے بیان کی، ان سے مجاہد نے، ان سے عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا تھا کہ ان قربانی کے جانوروں کے جھول اور ان کے چمڑے کو میں خیرات کردوں جنہیں قربانی کیا گیا تھا۔
تشریح : اس روایت میں گوشت کا ذکر نہیں، مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس کو کتاب الشرکۃ میں نکالا ہے۔ اس میں صاف یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قربانی میں شریک کر لیا تھا۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وکیل بنایا۔ اسی سے وکالت کا جواز ثابت ہوا جو باب کا مقصد ہے۔ اس روایت میں گوشت کا ذکر نہیں، مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جابر رضی اللہ عنہ کی روایت کی طرف اشارہ کیا جس کو کتاب الشرکۃ میں نکالا ہے۔ اس میں صاف یوں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قربانی میں شریک کر لیا تھا۔ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان امور کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وکیل بنایا۔ اسی سے وکالت کا جواز ثابت ہوا جو باب کا مقصد ہے۔