‌صحيح البخاري - حدیث 2297

کِتَابُ الكَفَالَةِ بَابُ جِوَارِ أَبِي بَكْرٍ فِي عَهْدِ النَّبِيِّ ﷺ وَعَقْدِهِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ عُقَيْلٍ قَالَ ابْنُ شِهَابٍ فَأَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ وَقَالَ أَبُو صَالِحٍ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ عَنْ يُونُسَ عَنْ الزُّهْرِيِّ قَالَ أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَمْ أَعْقِلْ أَبَوَيَّ قَطُّ إِلَّا وَهُمَا يَدِينَانِ الدِّينَ وَلَمْ يَمُرَّ عَلَيْنَا يَوْمٌ إِلَّا يَأْتِينَا فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ طَرَفَيْ النَّهَارِ بُكْرَةً وَعَشِيَّةً فَلَمَّا ابْتُلِيَ الْمُسْلِمُونَ خَرَجَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا قِبَلَ الْحَبَشَةِ حَتَّى إِذَا بَلَغَ بَرْكَ الْغِمَادِ لَقِيَهُ ابْنُ الدَّغِنَةِ وَهُوَ سَيِّدُ الْقَارَةِ فَقَالَ أَيْنَ تُرِيدُ يَا أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ أَخْرَجَنِي قَوْمِي فَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أَسِيحَ فِي الْأَرْضِ فَأَعْبُدَ رَبِّي قَالَ ابْنُ الدَّغِنَةِ إِنَّ مِثْلَكَ لَا يَخْرُجُ وَلَا يُخْرَجُ فَإِنَّكَ تَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَقْرِي الضَّيْفَ وَتُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ وَأَنَا لَكَ جَارٌ فَارْجِعْ فَاعْبُدْ رَبَّكَ بِبِلَادِكَ فَارْتَحَلَ ابْنُ الدَّغِنَةِ فَرَجَعَ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فَطَافَ فِي أَشْرَافِ كُفَّارِ قُرَيْشٍ فَقَالَ لَهُمْ إِنَّ أَبَا بَكْرٍ لَا يَخْرُجُ مِثْلُهُ وَلَا يُخْرَجُ أَتُخْرِجُونَ رَجُلًا يُكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَيَصِلُ الرَّحِمَ وَيَحْمِلُ الْكَلَّ وَيَقْرِي الضَّيْفَ وَيُعِينُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ فَأَنْفَذَتْ قُرَيْشٌ جِوَارَ ابْنِ الدَّغِنَةِ وَآمَنُوا أَبَا بَكْرٍ وَقَالُوا لِابْنِ الدَّغِنَةِ مُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيَعْبُدْ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَلْيُصَلِّ وَلْيَقْرَأْ مَا شَاءَ وَلَا يُؤْذِينَا بِذَلِكَ وَلَا يَسْتَعْلِنْ بِهِ فَإِنَّا قَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا قَالَ ذَلِكَ ابْنُ الدَّغِنَةِ لِأَبِي بَكْرٍ فَطَفِقَ أَبُو بَكْرٍ يَعْبُدُ رَبَّهُ فِي دَارِهِ وَلَا يَسْتَعْلِنُ بِالصَّلَاةِ وَلَا الْقِرَاءَةِ فِي غَيْرِ دَارِهِ ثُمَّ بَدَا لِأَبِي بَكْرٍ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ وَبَرَزَ فَكَانَ يُصَلِّي فِيهِ وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَيَتَقَصَّفُ عَلَيْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِكِينَ وَأَبْنَاؤُهُمْ يَعْجَبُونَ وَيَنْظُرُونَ إِلَيْهِ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَجُلًا بَكَّاءً لَا يَمْلِكُ دَمْعَهُ حِينَ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَأَفْزَعَ ذَلِكَ أَشْرَافَ قُرَيْشٍ مِنْ الْمُشْرِكِينَ فَأَرْسَلُوا إِلَى ابْنِ الدَّغِنَةِ فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ فَقَالُوا لَهُ إِنَّا كُنَّا أَجَرْنَا أَبَا بَكْرٍ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ وَإِنَّهُ جَاوَزَ ذَلِكَ فَابْتَنَى مَسْجِدًا بِفِنَاءِ دَارِهِ وَأَعْلَنَ الصَّلَاةَ وَالْقِرَاءَةَ وَقَدْ خَشِينَا أَنْ يَفْتِنَ أَبْنَاءَنَا وَنِسَاءَنَا فَأْتِهِ فَإِنْ أَحَبَّ أَنْ يَقْتَصِرَ عَلَى أَنْ يَعْبُدَ رَبَّهُ فِي دَارِهِ فَعَلَ وَإِنْ أَبَى إِلَّا أَنْ يُعْلِنَ ذَلِكَ فَسَلْهُ أَنْ يَرُدَّ إِلَيْكَ ذِمَّتَكَ فَإِنَّا كَرِهْنَا أَنْ نُخْفِرَكَ وَلَسْنَا مُقِرِّينَ لِأَبِي بَكْرٍ الِاسْتِعْلَانَ قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَتَى ابْنُ الدَّغِنَةِ أَبَا بَكْرٍ فَقَالَ قَدْ عَلِمْتَ الَّذِي عَقَدْتُ لَكَ عَلَيْهِ فَإِمَّا أَنْ تَقْتَصِرَ عَلَى ذَلِكَ وَإِمَّا أَنْ تَرُدَّ إِلَيَّ ذِمَّتِي فَإِنِّي لَا أُحِبُّ أَنْ تَسْمَعَ الْعَرَبُ أَنِّي أُخْفِرْتُ فِي رَجُلٍ عَقَدْتُ لَهُ قَالَ أَبُو بَكْرٍ إِنِّي أَرُدُّ إِلَيْكَ جِوَارَكَ وَأَرْضَى بِجِوَارِ اللَّهِ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ بِمَكَّةَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أُرِيتُ دَارَ هِجْرَتِكُمْ رَأَيْتُ سَبْخَةً ذَاتَ نَخْلٍ بَيْنَ لَابَتَيْنِ وَهُمَا الْحَرَّتَانِ فَهَاجَرَ مَنْ هَاجَرَ قِبَلَ الْمَدِينَةِ حِينَ ذَكَرَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَعَ إِلَى الْمَدِينَةِ بَعْضُ مَنْ كَانَ هَاجَرَ إِلَى أَرْضِ الْحَبَشَةِ وَتَجَهَّزَ أَبُو بَكْرٍ مُهَاجِرًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رِسْلِكَ فَإِنِّي أَرْجُو أَنْ يُؤْذَنَ لِي قَالَ أَبُو بَكْرٍ هَلْ تَرْجُو ذَلِكَ بِأَبِي أَنْتَ قَالَ نَعَمْ فَحَبَسَ أَبُو بَكْرٍ نَفْسَهُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَصْحَبَهُ وَعَلَفَ رَاحِلَتَيْنِ كَانَتَا عِنْدَهُ وَرَقَ السَّمُرِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2297

کتاب: کفالت کے مسائل کا بیان باب: نبی کریم ﷺ کے زمانہ میں حضرت ابوبکر ؓ کو ( ایک مشرک کا ) امان دینا اور اس کے ساتھ آپ کا عہد کرنا ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے کہ ابن شہاب نے بیان کیا، اور انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو اسی دین اسلام کا پیرو کار پایا۔ اور ابوصالح سلیمان نے بیان کیا کہ مجھ سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا۔ ان سے یونس نے، اور ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنے والدین کو دین اسلام کا پیروکار پایا۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے یہاں صبح و شام دونوں وقت تشریف نہ لاتے ہوں۔ پھر جب مسلمانوں کو بہت زیادہ تکلیف ہونے لگی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی ہجرت حبشہ کا ارادہ کیا۔ جب آپ برک الغماد پہنچے تو وہاں آپ کی ملاقات قارہ کے سردار مالک ابن الدغنہ سے ہوئی۔ اس نے پوچھا، ابوبکر ! کہاں کا ارادہ ہے؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب یہ دیا کہ میری قوم نے مجھے نکال دیا ہے۔ اور اب تو یہی ارادہ ہے کہ اللہ کی زمین میں سیر کروں اور اپنے رب کی عبادت کرتا رہوں۔ اس پر مالک بن الدغنہ نے کہا کہ آپ جیسا انسان ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کہ آپ تو محتاجوں کے لیے کماتے ہیں، صلہ رحمی کرتے ہیں۔ مجبوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔ اور حادثوں میں حق بات کی مدد کرتے ہیں۔ آپ کو میں امان دیتا ہوں۔ آپ چلئے اور اپنے ہی شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ ابن الدغنہ اپنے ساتھ ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لے کر آیا اور مکہ پہنچ کر کفار قریش کے تمام اشراف کے پاس گیا اور ان سے کہا کہ ابوبکر جیسا نیک آدمی ( اپنے وطن سے ) نہیں نکل سکتا۔ اور نہ اسے نکالا جاسکتا ہے۔ کیا تم ایسے شخص کو بھی نکال دو گے جو محتاجوں کے لیے کماتا ہے اور جو صلہ رحمی کرتا ہے اور جو مجبوروں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر پر لیتا ہے۔ اور جو مہمان نوازی کرتا ہے اور جو حادثوں میں حق بات کی مدد کرتا ہے۔ چنانچہ قریش نے ابن الدغنہ کی امان کو مان لیا۔ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو امان دے دی۔ پھر ابن الدغنہ سے کہا کہ ابوبکر کو اس کی تاکید کر دینا کہ اپنے رب کی عبادت اپنے گھر ہی میں کرلیا کریں۔ وہاں جس طرح چاہیں نماز پڑھیں، اور قرآن کی تلاوت کریں، لیکن ہمیں ان چیزوں کی وجہ سے کوئی ایذا نہ دیں اور نہ اس کا اظہار کریں، کیوں کہ ہمیں اس کا ڈر ہے کہ کہیں ہمارے بچے اور ہماری عورتیں فتنہ میں نہ پڑ جائیں۔ ابن الدغنہ نے یہ باتیں جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو سنائیں تو آپ اپنے رب کی عبادت گھر کے اند رہی کرنے لگے۔ نہ نماز میں کسی قسم کا اظہار کرتے اور نہ اپنے گھر کے سوا کسی دوسری جگہ تلاوت کرتے۔ پھر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کچھ دنوں بعد ایسا کیا کہ آپ نے اپنے گھر کے سامنے نماز کے لیے ایک جگہ بنا لی۔ اب آپ ظاہر ہو کروہاں نماز پڑھنے لگے۔ اور اسی پر تلاوت قرآن کرنے لگے۔ پس پھر کیا تھا مشرکین کے بچوں اور ان کی عورتوں کا مجمع لگنے لگا۔ سب حیرت اور تعجب کی نگاہوں سے انہیں دیکھتے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے ہی رونے والے تھے۔ جب قرآن پڑھنے لگتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا۔ اس صورت حال سے اکابر مشرکین قریش گھبرائے اور سب نے ابن الدغنہ کو بلا بھیجا۔ ابن الدغنہ ان کے پاس آیا تو ان سب نے کہا کہ ہم نے تو ابوبکر کو اس لیے امان دی تھی کہ وہ اپنے رب کی عبادت گھر کے اندر ہی کریں گے، لیکن وہ تو زیادتی پر اتر آئے اور گھر کے سامنے نماز پڑھنے کی ایک جگہ بنا لی ہے۔ نماز بھی سب کے سامنے ہی پڑھنے لگے ہیں اور تلاوت بھی سب کے سامنے کرنے لگے ہیں۔ ڈر ہمیں اپنی اولاد اور عورتوں کا ہے کہ کہیں وہ فتنہ میں نہ پڑجائیں۔ اس لیے اب تم ان کے پاس جاؤ۔ اگر وہ اس پر تیار ہو جائیں کہ اپنے رب کی عبادت صرف اپنے گھر کے اندر ہی کریں، پھر تو کوئی بات نہیں، لیکن اگر انہیں اس سے انکار ہو تو تم ان سے کہو کہ وہ تمہاری امان تمہیں واپس کردیں۔ کیوں کہ ہمیں یہ پسند نہیں کہ تمہاری امان کو ہم توڑد یں۔ لیکن اس طرح انہیں اظہار اور اعلان بھی کرنے نہیں دیں گے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے بعد ابن الدغنہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا کہ آپ کو معلوم ہے وہ شرط جس پر میرا آپ سے عہد ہوا تھا۔ اب یا توآپ اس شرط کی حدود میں رہیں یا میری امان مجھے واپس کردیں۔ کیوں کہ یہ میں پسند نہیں کرتا کہ عرب کے کانوں تک یہ بات پہنچے کہ میں نے ایک شخص کو امان دی تھی لیکن وہ امان توڑ دی گئی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تمہاری امان تمہیں واپس کرتا ہوں میں تو بس اپنے اللہ کی امان سے خوش ہوں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دنوں مکہ ہی میں موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تمہاری ہجرت کا مقام دکھلایا گیا ہے۔ میں نے ایک کھاری نمکین زمین دیکھی ہے۔ جہاں کھجور کے باغات ہیں اور وہ پتھریلے میدانوں کے درمیان میں ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا اظہار فرما دیا تو جن مسلمانوں نے ہجرت کرنی چاہی وہ پہلے ہی مدینہ ہجرت کرکے چلے گئے۔ بلکہ بعض وہ صحابہ بھی جو حبشہ ہجرت کرکے چلے گئے تھے وہ بھی مدینہ آگئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی ہجرت کی تیاریاں کرنے لگے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا، جلدی نہ کرو، امید ہے کہ مجھے بھی جلد ہی اجازت مل جائے گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے پوچھا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ! کیا آپ کو اس کی امید ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں ضرور ! چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگے، تاکہ آپ کے ساتھ ہجرت کریں۔ ان کے پاس دو اونٹ تھے، انہیں چار مہینے تک وہ ببول کے پتے کھلاتے رہے۔
تشریح : یہ حدیث واقعہ ہجرت سے متعلق بہت سی معلومات پر مشتمل ہے، نیز اس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا استقلال اور توکل علی اللہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسی شہر مکہ میں ( جہاں بیٹھ کر کعبہ مقدس میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثاروں کو انتہائی ایذائیں دی جارہی تھیں۔ جن سے مجبور ہو کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یہ مقدس شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اور ہجرت حبشہ کے ارادے سے برک الغماد نامی ایک مقام قریب مکہ میں پہنچ چکے تھے۔ کہ آپ کو قارہ قبیلے کا ایک سردار مالک بن دغنہ ملا۔ قارہ بنی اہون قبیلہ کی ایک شاخ تھی جو تیراندازی میں مشہورتھے۔ اس قبیلے کے سردار مالک بن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب حالت سفر میں کوچ کرتے دیکھا تو فوراً اس کے منہ سے نکلا کہ آپ جیسا شریف آدمی جو غریب پرور ہو، صلہ رحمی کرنے والا ہو، جو دوسروں کا بوجھ اپنے سر اٹھا لیتا ہو اور جو مہمان نوازی میں بے نظیر خوبیوں کا مالک ہو، ایسا نیک ترین انسان ہرگز مکہ سے نہیں نکل سکتا۔ نہ وہ نکالا جاسکتا ہے۔ آپ میری پناہ میں ہو کر واپس مکہ تشریف لے چلئے اور وہیں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ مکہ واپس آگئے۔ اور ابن دغنہ نے مکہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے امن دینے کا اعلان عام کر دیا۔ جسے قریش نے بھی منظور کر لیا، مگر یہ شرط ٹھہرائی کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ علانیہ نماز نہ پڑھیں۔ نہ تلاوت قرآن فرمائیں، جسے سن کر ہمارے نوجوان بگڑ جاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے گھر کے اندر تنگی محسوس فرما کر باہر دالان میں بیٹھنا اور قرآن شریف پڑھنا شروع فرما دیا۔ اسی پر کفار قریش نے شکوہ وشکایتوں کا سلسلہ شروع کرکے ابن دغنہ کو ورغلایا اور وہ اپنی پناہ واپس لینے پر تیار ہو گیا۔ جس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صاف فرما دیا کہ انی ارد الیک جوارک و ارضی بجوار اللہ یعنی اے ابن دغنہ ! میں تمہاری پناہ تم کو واپس کرتا ہوں اور میں اللہ پاک کی امان پر راضی ہوں۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف ہی میں موجود تھے، آپ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات فرمائی تو بتلایا کہ جلد ہی ہجرت کا واقعہ سامنے آنے والا ہے۔ اور اللہ نے مجھے تمہاری ہجرت کا مقام بھی دکھلایا دیا ہے۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مدینہ طیبہ سے تھی۔ اس بشارت کو سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی اونٹینوں کو سفر کے لیے تیا رکرنے کے خیال سے ببول کے پتے بکثرت کھلانے شروع کر دیئے۔ تاکہ وہ تیز رفتاری سے ہجرت کے وقت سفر کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ آپ چار ماہ تک لگاتار ان سواریوں کو سفر ہجرت کے لیے تیار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہجرت کا وقت آگیا۔ اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ ابن دعنہ نے گویا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ضمانت کی تھی، کہ ان کو مالی اور بدنی ایذا نہ پہچنے۔ حافظ فرماتے ہیں : و الغرض من ہذا الحدیث ہنا رضا ابی بکر بجوار ابن الدعنۃ و تقریر النبی صلی اللہ علیہ وسلم لہ علی ذلک ووجہ دخولہ فی الکفالۃ انہ لائق بکفالۃ الابدان لان الذی اجارہ کانہ تکفل بنفس المجار ان لا یضام قالہ ابن المنیر ( فتح ) یعنی یہاں اس حدیث کے درج کرنے سے غرض یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کی پڑوس اور اس کی پناہ دینے پر راضی ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو ثابت رکھا۔ اور اس حدیث کو باب الکفالۃ میں داخل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ابدان کا کفالت میں دینا جائز ثابت ہوا۔ گویا جس نے ان کو پناہ دی وہ ان کی جان کے کفیل بن گئے کہ ان کو کوئی تکلیف نہ دی جائے گی۔ اللہ کی شان ایک وہ وقت تھا اور ایک وقت آج ہے کہ مکہ معظمہ ایک عظیم اسلامی مرکز کی حیثیت میں دنیائے اسلام کے ستر کروڑ انسانوں کا قبلہ و کعبہ بنا ہوا ہے۔ جہاں ہر سال بر تقریب حج 20-25 لاکھ مسلمان جمع ہو کر صداقت اسلام کا اعلان کرتے ہیں۔ الحمد للہ الذی صدق وعدہ و نصر عبدہ و ہزم الاحزاب و حدہ فلا شی بعدہ۔ آج 22ذی الجحجہ 1389ھ کو بعد مغرب مطاف مقدس میں بیٹھ کر یہ نوٹ حوالہ قلم کیا گیا۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔ یہ حدیث واقعہ ہجرت سے متعلق بہت سی معلومات پر مشتمل ہے، نیز اس سے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا استقلال اور توکل علی اللہ بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ایک وقت تھا کہ اسی شہر مکہ میں ( جہاں بیٹھ کر کعبہ مقدس میں یہ سطریں لکھ رہا ہوں ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثاروں کو انتہائی ایذائیں دی جارہی تھیں۔ جن سے مجبور ہو کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ یہ مقدس شہر چھوڑنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اور ہجرت حبشہ کے ارادے سے برک الغماد نامی ایک مقام قریب مکہ میں پہنچ چکے تھے۔ کہ آپ کو قارہ قبیلے کا ایک سردار مالک بن دغنہ ملا۔ قارہ بنی اہون قبیلہ کی ایک شاخ تھی جو تیراندازی میں مشہورتھے۔ اس قبیلے کے سردار مالک بن دغنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جب حالت سفر میں کوچ کرتے دیکھا تو فوراً اس کے منہ سے نکلا کہ آپ جیسا شریف آدمی جو غریب پرور ہو، صلہ رحمی کرنے والا ہو، جو دوسروں کا بوجھ اپنے سر اٹھا لیتا ہو اور جو مہمان نوازی میں بے نظیر خوبیوں کا مالک ہو، ایسا نیک ترین انسان ہرگز مکہ سے نہیں نکل سکتا۔ نہ وہ نکالا جاسکتا ہے۔ آپ میری پناہ میں ہو کر واپس مکہ تشریف لے چلئے اور وہیں اپنے رب کی عبادت کیجئے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کے ساتھ مکہ واپس آگئے۔ اور ابن دغنہ نے مکہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے امن دینے کا اعلان عام کر دیا۔ جسے قریش نے بھی منظور کر لیا، مگر یہ شرط ٹھہرائی کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ علانیہ نماز نہ پڑھیں۔ نہ تلاوت قرآن فرمائیں، جسے سن کر ہمارے نوجوان بگڑ جاتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے گھر کے اندر تنگی محسوس فرما کر باہر دالان میں بیٹھنا اور قرآن شریف پڑھنا شروع فرما دیا۔ اسی پر کفار قریش نے شکوہ وشکایتوں کا سلسلہ شروع کرکے ابن دغنہ کو ورغلایا اور وہ اپنی پناہ واپس لینے پر تیار ہو گیا۔ جس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صاف فرما دیا کہ انی ارد الیک جوارک و ارضی بجوار اللہ یعنی اے ابن دغنہ ! میں تمہاری پناہ تم کو واپس کرتا ہوں اور میں اللہ پاک کی امان پر راضی ہوں۔ اس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ شریف ہی میں موجود تھے، آپ نے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے ملاقات فرمائی تو بتلایا کہ جلد ہی ہجرت کا واقعہ سامنے آنے والا ہے۔ اور اللہ نے مجھے تمہاری ہجرت کا مقام بھی دکھلایا دیا ہے۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد مدینہ طیبہ سے تھی۔ اس بشارت کو سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی اونٹینوں کو سفر کے لیے تیا رکرنے کے خیال سے ببول کے پتے بکثرت کھلانے شروع کر دیئے۔ تاکہ وہ تیز رفتاری سے ہجرت کے وقت سفر کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ آپ چار ماہ تک لگاتار ان سواریوں کو سفر ہجرت کے لیے تیار فرماتے رہے یہاں تک کہ ہجرت کا وقت آگیا۔ اس حدیث سے باب کی مطابقت یوں ہے کہ ابن دعنہ نے گویا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ضمانت کی تھی، کہ ان کو مالی اور بدنی ایذا نہ پہچنے۔ حافظ فرماتے ہیں : و الغرض من ہذا الحدیث ہنا رضا ابی بکر بجوار ابن الدعنۃ و تقریر النبی صلی اللہ علیہ وسلم لہ علی ذلک ووجہ دخولہ فی الکفالۃ انہ لائق بکفالۃ الابدان لان الذی اجارہ کانہ تکفل بنفس المجار ان لا یضام قالہ ابن المنیر ( فتح ) یعنی یہاں اس حدیث کے درج کرنے سے غرض یہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ابن دغنہ کی پڑوس اور اس کی پناہ دینے پر راضی ہو گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کو ثابت رکھا۔ اور اس حدیث کو باب الکفالۃ میں داخل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس سے ابدان کا کفالت میں دینا جائز ثابت ہوا۔ گویا جس نے ان کو پناہ دی وہ ان کی جان کے کفیل بن گئے کہ ان کو کوئی تکلیف نہ دی جائے گی۔ اللہ کی شان ایک وہ وقت تھا اور ایک وقت آج ہے کہ مکہ معظمہ ایک عظیم اسلامی مرکز کی حیثیت میں دنیائے اسلام کے ستر کروڑ انسانوں کا قبلہ و کعبہ بنا ہوا ہے۔ جہاں ہر سال بر تقریب حج 20-25 لاکھ مسلمان جمع ہو کر صداقت اسلام کا اعلان کرتے ہیں۔ الحمد للہ الذی صدق وعدہ و نصر عبدہ و ہزم الاحزاب و حدہ فلا شی بعدہ۔ آج 22ذی الجحجہ 1389ھ کو بعد مغرب مطاف مقدس میں بیٹھ کر یہ نوٹ حوالہ قلم کیا گیا۔ ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم۔