‌صحيح البخاري - حدیث 2294

کِتَابُ الكَفَالَةِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ) صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ زَكَرِيَّاءَ حَدَّثَنَا عَاصِمٌ قَالَ قُلْتُ لِأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَبَلَغَكَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا حِلْفَ فِي الْإِسْلَامِ فَقَالَ قَدْ حَالَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ قُرَيْشٍ وَالْأَنْصَارِ فِي دَارِي

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2294

کتاب: کفالت کے مسائل کا بیان باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “ ہم سے محمد بن صباح نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن زکریا نے بیان کیا، ان سے عاصم بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا آپ کو یہ بات معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا، اسلام میں جاہلیت والے ( غلط قسم کے ) عہد و پیمان نہیں ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو خود انصار اور قریش کے درمیان میرے گھر میں عہد و پیمان کرایا تھا۔
تشریح : معلوم ہوا کہ عہد و پیمان اگر حق اور انصاف اور عدل کی بنا پر ہو تو وہ مذموم نہیں ہے بلکہ ضروری ہے مگر اس عہد وپمان میں صرف باہمی مدد و خیر خواہی مد نظر ہوگی۔ اور ترکہ کا ایسے بھائی چارہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا کہ وہ وارثوں کا حق ہے۔ یہ امردیگر ہے کہ ایسے مواقع پر حسب قائدہ شرعی مرنے والے کو وصیت کا حق حاصل ہے۔ معلوم ہوا کہ عہد و پیمان اگر حق اور انصاف اور عدل کی بنا پر ہو تو وہ مذموم نہیں ہے بلکہ ضروری ہے مگر اس عہد وپمان میں صرف باہمی مدد و خیر خواہی مد نظر ہوگی۔ اور ترکہ کا ایسے بھائی چارہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا کہ وہ وارثوں کا حق ہے۔ یہ امردیگر ہے کہ ایسے مواقع پر حسب قائدہ شرعی مرنے والے کو وصیت کا حق حاصل ہے۔