‌صحيح البخاري - حدیث 2292

کِتَابُ الكَفَالَةِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: (وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ) صحيح حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ إِدْرِيسَ عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ قَالَ وَرَثَةً وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ قَالَ كَانَ الْمُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَرِثُ الْمُهَاجِرُ الْأَنْصَارِيَّ دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلْأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ فَلَمَّا نَزَلَتْ وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ نَسَخَتْ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ إِلَّا النَّصْرَ وَالرِّفَادَةَ وَالنَّصِيحَةَ وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ وَيُوصِي لَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2292

کتاب: کفالت کے مسائل کا بیان باب : اللہ تعالیٰ کا ( سورہ نساء میں ) یہ ارشاد کہ ” جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو “ ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ ( قرآن مجید کی آیت لکل جعلنا موالی کے متعلق ابن عباس نے فرمایا کہ ( موالی کے معنی ) ورثہ کے ہیں۔ اور والذین عقدت ایمانکم ( کا قصہ یہ ہے کہ ) مہاجرین جب مدینہ آئے تو مہاجر انصار کا ترکہ پاتے تھے اور انصاری کے ناتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اس بھائی پنے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی تھی۔ پھر جب آیت و لکل جعلنا موالی نازل ہوئی تو پہلی آیت والذین عقدت ایمانکم منسوخ ہو گئی۔ سوا امداد، تعاون اور خیر خواہی کے۔ البتہ میراث کا حکم ( جو انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کی وجہ سے تھا ) وہ منسوخ ہو گیا اور وصیت جنتی چاہے کی جاسکتی ہے۔ ( جیسی اور شخصوں کے لیے بھی ہو سکتی ہے تہائی ترکہ میں سے وصیت کی جاسکتی ہے جس کا نفاذ کیا جائے گا۔ )
تشریح : یعنی مولی الموالاۃ سے عرب لوگوں میں دستور تھا کسی سے بہت دوستی ہو جاتی تو اس سے معاہدہ کرتے اور کہتے کہ تیرا خون ہمارا خون ہے اور تو جس سے لڑے ہم اس سے لڑیں تو جس سے صلح کرے ہم اس سے صلح کریں۔ تو ہمارا وارث ہم تیرے وارث، تیرا قرضہ ہم سے لیا جائے گا ہمارا قرضہ تجھ سے، تیری طرف سے ہم دیت دیں تو ہماری طرف سے۔ شروع زمانہ اسلام میں ایسے شخص کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملنے کا حکم ہوا تھا۔ پھر یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔ و اولوا الارحام بعضہم اولی ببعض فی کتب اللہ ( الانفال : 75 ) ابن منیر نے کہا کفالت کے باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کو اس لیے لائے کہ جب حلف سے جو ایک عقد تھا، شروع زمانہ اسلام میں ترکہ کا استحقاق پیدا ہو گیا تو کفالت کرنے سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر پیدا ہوگی کیوں کہ وہ بھی ایک عقد ہے۔ عربوں میں جاہلی دستور تھا کہ بلا حق وناحق دیکھے کسی اہم موقع پر محض قبائلی عصبیت کے تحت قسم کھا بیٹھتے کہ ہم ایسا ایسا کریں گے۔ خواہ حق ہو تا یا ناحق، اسی کو حلف جاہلیت کہا گیا۔ اور بتلایا کہ اسلام میں ایسی غلط قسم کی قسموں کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام سراسر عدل کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا ولا یجرمنکم شنان قوم علی الّا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقوی ( المائدۃ : 8 ) محض قومی عصبیت کی بنا پر ہرگز ظلم پر کمر نہ باندھو، انصاف کرو کہ تقویٰ سے انصاف ہی قریب ہے۔ قال الطبری ما استدل بہ انس علی اثبات الحلف لا ینافی حدیث جبیر بن مطعم فی نفیہ فان الاخاءالمذکور کان فی اول الہجرۃ و کانوا یتوارثون بہ ثم نسخ من ذلک المیراث و بقی مالکم یبطلہ القرآن و ہو التعاون علی الحق والنصر و الاخذ علی ید الظالم کما قال ابن عباس الا النصر والنصیحۃ و الوفادۃ و یوصی لہ و قد ذہب المیراث ( فتح ) یعنی طبری نے کہا کہ اثبات حلف کے لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جو استدلال کیا وہ جبیر بن مطعم کی نفی کے خلاف نہیں ہے۔ اخاءمذکور یعنی اس قسم کا بھائی چارہ شروع ہجرت میں قائم کیا گیا تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میراث کو منسوخ کر دیا گیا اور وہ چیز اپنی حالت پر باقی رہ گئی جس کو قرآن مجید نے باطل قرار نہیں دیا۔ اور وہ حق پر باہمی تعاون اور امداد کرنا اور ظالم کے ہاتھ پکڑنا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میراث تو چلی گئی مگر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا یہ چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔ بلکہ اپنے بھائیوں کے لیے وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔ واقعہ مواخات اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ مہاجر جو اپنے گھر بار وطن چھوڑ کر مدینہ شریف چلے آئے تھے ان کی دلجوئی بہت ضروری تھی۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے باشندگان انصار میں ان کو تقسیم فرما دیا۔ انصاری بھائیوں نے جس خلوص اور رفاقت کا ثبوت دیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں ملنی ناممکن ہے۔ آخر یہی مہاجر مدینہ کے زندگی میں گھل مل گئے۔ اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر خود انصار کے لیے باعث تقویت ہو گئے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ آج مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر انصار مدینہ اور مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم کا یہ ذکر خیر یہاں لکھتے ہوئے دل پر ایک رقت آمیز اثر محسوس کر رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ انصار و مہاجرین قصر اسلام کے دو اہم ترین ستون ہیں جن پر اس عظیم قصر کی تعمیر ہوئی ہے۔ آج بھی مدینہ کی فضا ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے تاثرات سے بھر پور نظر آرہی ہے۔ مسجد نبوی حرم نبوی میں مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر عبادت الٰہی و صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں اور سب میں مواخات اور اسلامی محبت کی ایک غیر محسوس لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر مسلمان یہاں سے جانے کے بعد بھی باہمی مواخات کو ہر ہر جگہ قائم رکھیں تو دنیائے انسانیت کے لیے وہ ایک بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔ 4 صفر 1390ھ کو محترم بھائی حاجی عبدالرحمن سندی باب مجیدی مدینہ منور کے دولت کدہ پر یہ الفاظ نظر ثانی کرتے ہوئے لکھے گئے۔ بہ سلسلہ اشاعت بخاری شریف مترجم اردو حاجی صاحب موصوف کی مجاہدانہ کوششوں کے لیے امید ہے کہ ہر مطالعہ کرنے والے بھائی دعائے خیر کریں گے۔ یعنی مولی الموالاۃ سے عرب لوگوں میں دستور تھا کسی سے بہت دوستی ہو جاتی تو اس سے معاہدہ کرتے اور کہتے کہ تیرا خون ہمارا خون ہے اور تو جس سے لڑے ہم اس سے لڑیں تو جس سے صلح کرے ہم اس سے صلح کریں۔ تو ہمارا وارث ہم تیرے وارث، تیرا قرضہ ہم سے لیا جائے گا ہمارا قرضہ تجھ سے، تیری طرف سے ہم دیت دیں تو ہماری طرف سے۔ شروع زمانہ اسلام میں ایسے شخص کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملنے کا حکم ہوا تھا۔ پھر یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔ و اولوا الارحام بعضہم اولی ببعض فی کتب اللہ ( الانفال : 75 ) ابن منیر نے کہا کفالت کے باب میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کو اس لیے لائے کہ جب حلف سے جو ایک عقد تھا، شروع زمانہ اسلام میں ترکہ کا استحقاق پیدا ہو گیا تو کفالت کرنے سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر پیدا ہوگی کیوں کہ وہ بھی ایک عقد ہے۔ عربوں میں جاہلی دستور تھا کہ بلا حق وناحق دیکھے کسی اہم موقع پر محض قبائلی عصبیت کے تحت قسم کھا بیٹھتے کہ ہم ایسا ایسا کریں گے۔ خواہ حق ہو تا یا ناحق، اسی کو حلف جاہلیت کہا گیا۔ اور بتلایا کہ اسلام میں ایسی غلط قسم کی قسموں کا کوئی مقام نہیں ہے۔ اسلام سراسر عدل کی ترغیب دیتا ہے۔ قرآن مجید میں فرمایا ولا یجرمنکم شنان قوم علی الّا تعدلوا اعدلوا ہو اقرب للتقوی ( المائدۃ : 8 ) محض قومی عصبیت کی بنا پر ہرگز ظلم پر کمر نہ باندھو، انصاف کرو کہ تقویٰ سے انصاف ہی قریب ہے۔ قال الطبری ما استدل بہ انس علی اثبات الحلف لا ینافی حدیث جبیر بن مطعم فی نفیہ فان الاخاءالمذکور کان فی اول الہجرۃ و کانوا یتوارثون بہ ثم نسخ من ذلک المیراث و بقی مالکم یبطلہ القرآن و ہو التعاون علی الحق والنصر و الاخذ علی ید الظالم کما قال ابن عباس الا النصر والنصیحۃ و الوفادۃ و یوصی لہ و قد ذہب المیراث ( فتح ) یعنی طبری نے کہا کہ اثبات حلف کے لیے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جو استدلال کیا وہ جبیر بن مطعم کی نفی کے خلاف نہیں ہے۔ اخاءمذکور یعنی اس قسم کا بھائی چارہ شروع ہجرت میں قائم کیا گیا تھا۔ وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوا کرتے تھے۔ بعد میں میراث کو منسوخ کر دیا گیا اور وہ چیز اپنی حالت پر باقی رہ گئی جس کو قرآن مجید نے باطل قرار نہیں دیا۔ اور وہ حق پر باہمی تعاون اور امداد کرنا اور ظالم کے ہاتھ پکڑنا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میراث تو چلی گئی مگر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا یہ چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔ بلکہ اپنے بھائیوں کے لیے وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔ واقعہ مواخات اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔ مہاجر جو اپنے گھر بار وطن چھوڑ کر مدینہ شریف چلے آئے تھے ان کی دلجوئی بہت ضروری تھی۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے باشندگان انصار میں ان کو تقسیم فرما دیا۔ انصاری بھائیوں نے جس خلوص اور رفاقت کا ثبوت دیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں ملنی ناممکن ہے۔ آخر یہی مہاجر مدینہ کے زندگی میں گھل مل گئے۔ اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر خود انصار کے لیے باعث تقویت ہو گئے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین۔ آج مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر انصار مدینہ اور مہاجرین کرام رضی اللہ عنہم کا یہ ذکر خیر یہاں لکھتے ہوئے دل پر ایک رقت آمیز اثر محسوس کر رہا ہوں۔ واقعہ یہ ہے کہ انصار و مہاجرین قصر اسلام کے دو اہم ترین ستون ہیں جن پر اس عظیم قصر کی تعمیر ہوئی ہے۔ آج بھی مدینہ کی فضا ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے تاثرات سے بھر پور نظر آرہی ہے۔ مسجد نبوی حرم نبوی میں مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر عبادت الٰہی و صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں اور سب میں مواخات اور اسلامی محبت کی ایک غیر محسوس لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔ مگر مسلمان یہاں سے جانے کے بعد بھی باہمی مواخات کو ہر ہر جگہ قائم رکھیں تو دنیائے انسانیت کے لیے وہ ایک بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔ 4 صفر 1390ھ کو محترم بھائی حاجی عبدالرحمن سندی باب مجیدی مدینہ منور کے دولت کدہ پر یہ الفاظ نظر ثانی کرتے ہوئے لکھے گئے۔ بہ سلسلہ اشاعت بخاری شریف مترجم اردو حاجی صاحب موصوف کی مجاہدانہ کوششوں کے لیے امید ہے کہ ہر مطالعہ کرنے والے بھائی دعائے خیر کریں گے۔