‌صحيح البخاري - حدیث 2289

كِتَابُ الحَوَالاَتِ بَابُ إِنْ أَحَالَ دَيْنَ المَيِّتِ عَلَى رَجُلٍ جَازَ صحيح حَدَّثَنَا الْمَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ فَقَالُوا صَلِّ عَلَيْهَا فَقَالَ هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوا لَا قَالَ فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا لَا فَصَلَّى عَلَيْهِ ثُمَّ أُتِيَ بِجَنَازَةٍ أُخْرَى فَقَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلِّ عَلَيْهَا قَالَ هَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قِيلَ نَعَمْ قَالَ فَهَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا ثَلَاثَةَ دَنَانِيرَ فَصَلَّى عَلَيْهَا ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ فَقَالُوا صَلِّ عَلَيْهَا قَالَ هَلْ تَرَكَ شَيْئًا قَالُوا لَا قَالَ فَهَلْ عَلَيْهِ دَيْنٌ قَالُوا ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ قَالَ صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ قَالَ أَبُو قَتَادَةَ صَلِّ عَلَيْهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَعَلَيَّ دَيْنُهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2289

کتاب: حوالہ کے مسائل کا بیان باب : اگر کسی میت کا قرض کسی ( زندہ ) شخص کے حوالہ کیا جائے تو جائز ہے ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یزید بن ابی عبید نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا۔ لوگوںنے آپ سے عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ اس پر آپ نے پوچھا کیا اس پر کوئی قرض ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ نہیں کوئی قرض نہیں ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ میت نے کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا کوئی مال بھی نہیں چھوڑا۔ آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔ اس کے بعد ایک دوسرا جنازہ لایا گیا لوگوں نے عرض کیا یارسول اللہ ! آپ ان کی بھی نماز جنازہ پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، کسی کا قرض بھی میت پرہے؟ عرض کیا گیا کہ ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ سلم نے دریافت فرمایا، کچھ مال بھی چھوڑا ہے؟ لوگو ںنے کہا کہ تین دینار چھوڑے ہیں۔ آپ نے ان کی بھی نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر تیسرا جنازہ لایا گیا۔ لوگو ںنے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اس کی نماز پڑھا دیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق بھی وہی دریافت فرمایا، کیا کوئی مال ترکہ چھوڑا ہے؟ لوگو ںنے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا، اور اس پر کسی کا قرض بھی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ہاں تین دینار ہیں۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر اپنے ساتھی کی تم ہی لوگ نماز پڑھ لو۔ ابوقتادۃ رضی اللہ عنہ بولے، یا رسول اللہ ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی نماز پڑھا دیجئے، ان کا قرض میں ادا کردوں گا۔ تب آپ نے اس پر نماز پڑھائی۔
تشریح : ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے میں اس کا ضامن ہوں۔ حاکم کی روایت میں یوں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا، وہ اشرفیاں تجھ پر ہیں اور میت بری ہو گیا۔ جمہور علماءنے اس سے استدلال کیا ہے کہ ایسی کفالت صحیح ہے اور کفیل کو پھر میت کے مال میں رجوع کا حق نہیں پہنچتا۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر رجوع کی شرط کر لے تو رجوع کرسکتاہے۔ اوراگر ضامن کو یہ معلوم ہو کہ میت نادار ہے تو رجوع نہیں کرسکتا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر میت بقدر قرض کے جائیداد چھوڑ گیا ہے تب تو ضمانت درست ہوگی ورنہ ضمانت درست نہ ہوگی۔ امام صاحب کا یہ قول صراحتاً حدیث کے خلاف ہے۔ ( وحیدی ) اور خود حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت ہے کہ حدیث نبوی کے خلاف میرا کوئی قول ہو اسے چھوڑ دو۔ جو لوگ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان کے خلاف کرتے ہیں وہ سوچیں کہ قیامت کے دن حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کو کیا منہ دکھلائیں گے۔ ہر مسلمان کو یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ و رسول کے بعد جملہ ائمہ دین، مجتہدین، اولیاءکاملین، فقہائے کرام، بزرگان اسلام کا ماننا یہی ہے کہ ان کا احترام کامل دل میں رکھا جائے۔ ان کی عزت کی جائے، ان کی شان میں گستاخی کا کوئی لفظ نہ نکالا جائے۔ اور ان کے کلمات و ارشادات جو کتاب و سنت سے نہ ٹکرائیں وہ سر آنکھوں پر رکھے جائیں۔ ان کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور اگر خدانخواستہ ان کا کوئی فرمان ظاہر آیت قرآن یا حدیث مرفوع کے خلاف ہو تو خود ان ہی کی وصیت کے تحت اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث کی اتبا ع کی جائے۔ یہی راہ نجات اور صراط مستقیم ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور ان کے کلمات ہی کو بنیاد دین ٹھہرا لیا گیا تو یہ اس آیت کے تحت ہوگا۔ ام لہم شرکٰوٓا شرعوا لہم من الدین ما لم باذن بہ اللہ ( الشوری : 21 ) کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں ( جو شریعت سازی میں خدا کی شرکت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ شریعت سازی دراصل محض ایک اللہ پاک کا کام ہے۔ ) جنہو ںنے دین کے نام پر ان کے لیے ایسی ایسی چیزوں کو شریعت کا نام دے دیا ہے جن کا اللہ پاک نے کوئی اذن نہیں دیا۔ صد افسوس کہ امت اس مرض میں ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے گرفتار ہے اور ابھی تک اس وباءسے شفائے کامل کے آثار نظر نہیں آتے۔ اللہم ارحم علی امۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم خود ہندو پاکستان میں دیکھ لیجئے ! کونے کونے میں نئی نئی بدعات، عجیب عجیب رسومات نظر آئیں گی۔ کہیں محرم میں تعزیہ سازی ہو رہی ہے تو کہیں کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ کہیں قبروں پر غلافوں کے جلوس نکالے جارہے ہیں تو کہیں علم اٹھائے جارہے ہیں تعجب مزیدیہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ اس طرح اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ علماءہیں کہ منہ میں لگام لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ جواز تلاش کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ اس طرح باآسانی ان کی دکان چل سکتی ہے۔ ان اللہ و انا الیہ راجعون۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : زاد الحاکم فی حدیث جابر فقال ہما علیک و فی مالک و المیت منہما بری قال نعم فصلی علیہ فجعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا لقی ابا قتادۃ یقول ما صنعت الدینار ان حتی کان اخر ذلک ان قال قد قضیتہا یا رسول اللہ قال الان حین بردت علیہ جلدہ و قد وقعت ہذہ القصۃ مرۃ اخری فروی۔ الدار قطنی من حدیث علی کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اتی بجنازۃ لم یسال عن شی من عمل الرجل و یسال عن دینہ فان قیل علیہ دین کف و ان قیل لیس علیہ دین صلی فاتی بجنازۃ فلما قام لیکبر سال ہل علیہ دین؟ فقالوا دینار ان فعدل عنہ فقال علی ہما علی یا رسول اللہ وہوبری منہما فصلی علیہ ثم قال لعلی جزاک اللہ خیرا و فک اللہ رہناک ( فتح الباری ) یعنی حدیث جابر میں حاکم نے یوں زیادہ کیا ہے کہ میت کے قرض والے وہ دو دینار تیرے اوپر تیرے مال میں سے ادا کرنے واجب ہو گئے۔ اور میت ان سے بری ہو گیا۔ اس پرصحابہ نے کہا، ہاں یا رسول اللہ واقعہ یہی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میت پر نماز جنازہ پڑھائی۔ پس جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوقتادہ سے ملاقات فرماتے آپ دریافت کرتے تھے کہ اے ابوقتادہ ! تمہارے ان دو دیناروں کا وعدہ کیا ہوا؟ یہاں تک کہ ابوقتادہ نے کہہ دیا کہ حضور ان کو میں ادا کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا اب تم نے اس میت کی کھال کو ٹھنڈا کردیا۔ ایسا ہی واقعہ ایک مرتبہ اور بھی ہوا ہے جسے دارقطنی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی جنازہ لایا جاتا آپ اس کے کسی عمل کے بارے میں نہ پوچھتے مگر قرض سے متعلق ضرور پوچھتے۔ اگر اسے مقروض بتلایا جاتا تو آپ اس کا جنازہ نہ پڑھتے اور اگراس کے خلاف ہوتا تو آپ جناز پڑھا دیتے۔ پس ایک دن ایک جنازہ لایا گیا۔ جب آپ نماز کی تکبیر کہنے لگے تو پوچھا کہ کیا یہ مقروض ہے؟ کہا گیا کہ ہاں دو دینار کا مقروض ہے۔ پس آپ جنازہ پڑھنے سے رک گئے۔ یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ میں ادا کردوں گا۔ اور یہ میت ان سے بری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور فرمایا کہ اے علی ! اللہ تم کو جزائے خیر دے، اللہ تم کو بھی تمہارے رہن سے آزاد کرے یعنی تم کو جنت عطا کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی میت مقروض ہو اور اس وجہ سے اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھائی جارہی ہو تو اگرکوئی مسلمان اس کی مدد کرے اور اس کا قرضہ اپنے سر لے لے تو یہ بہت بڑا ثواب اور باعث رضائے خدا اور رسول ہے اور ا س حدیث کے ذیل میں داخل ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا۔ خاص طور پر جب کہ وہ دنیا سے کوچ کر رہا ہے۔ ایسے وقت ایسی امداد بڑی اہمیت رکھتی ہے مگر بعض نام نہاد مسلمانوں کی عقلوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایسی امداد پر ایک کوڑی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ویسے نام نمود کے لیے مردہ کی فاتحہ، تیجہ، چالیسواں، من گھڑت رسموں میں کتنا ہی روپیہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ رسوم ہیں جن کا قرآن وحدیث و اقوال صحابہ حتی کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مگر شکم پرور علماءنے ایسی رسموں کی حمایت میں ایک طوفان جدال کھڑا کر رکھا ہے۔ اور ان رسمو ںکو عین خوشنودی خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں اور ان کے اثبات کے لیے آیا ت قرآنی و احادیث نبوی میں وہ وہ تاویلات فاسدہ کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے سچ ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں فرمایا تھا۔ من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد جو ہمارے دین میں ایسی نئی چیز نکالے جس کا ثبوت ہماری شریعت سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔ ظاہر ہے کہ رسوم مروجہ نہ عہد رسالت میں تھیں نہ عہد صحابہ و تابعین میں جب کہ ان زمانوں میں مسلمان وفات پاتے تھے، شہید ہوتے تھے مگر ان میں کسی کے بھی تیجہ چالیسویں کا ثبوت نہیں حتی کہ خود حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے بھی ثبوت نہیں کہ ان کا تیجہ، چالیسواں کیا گیا ہو۔ نہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تیجہ فاتحہ ثابت ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو اپنی طرف سے شریعت میں کمی بیشی کرنا، خود لعنت خداوندی میں گرفتار ہونا ہے۔ اعاذنا اللہ منہا آمین۔ ابن ماجہ کی روایت میں یوں ہے میں اس کا ضامن ہوں۔ حاکم کی روایت میں یوں ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا، وہ اشرفیاں تجھ پر ہیں اور میت بری ہو گیا۔ جمہور علماءنے اس سے استدلال کیا ہے کہ ایسی کفالت صحیح ہے اور کفیل کو پھر میت کے مال میں رجوع کا حق نہیں پہنچتا۔ اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر رجوع کی شرط کر لے تو رجوع کرسکتاہے۔ اوراگر ضامن کو یہ معلوم ہو کہ میت نادار ہے تو رجوع نہیں کرسکتا۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں اگر میت بقدر قرض کے جائیداد چھوڑ گیا ہے تب تو ضمانت درست ہوگی ورنہ ضمانت درست نہ ہوگی۔ امام صاحب کا یہ قول صراحتاً حدیث کے خلاف ہے۔ ( وحیدی ) اور خود حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کی وصیت ہے کہ حدیث نبوی کے خلاف میرا کوئی قول ہو اسے چھوڑ دو۔ جو لوگ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس فرمان کے خلاف کرتے ہیں وہ سوچیں کہ قیامت کے دن حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ کو کیا منہ دکھلائیں گے۔ ہر مسلمان کو یہ اصول ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ و رسول کے بعد جملہ ائمہ دین، مجتہدین، اولیاءکاملین، فقہائے کرام، بزرگان اسلام کا ماننا یہی ہے کہ ان کا احترام کامل دل میں رکھا جائے۔ ان کی عزت کی جائے، ان کی شان میں گستاخی کا کوئی لفظ نہ نکالا جائے۔ اور ان کے کلمات و ارشادات جو کتاب و سنت سے نہ ٹکرائیں وہ سر آنکھوں پر رکھے جائیں۔ ان کو دل و جان سے تسلیم کیا جائے اور اگر خدانخواستہ ان کا کوئی فرمان ظاہر آیت قرآن یا حدیث مرفوع کے خلاف ہو تو خود ان ہی کی وصیت کے تحت اسے چھوڑ کر قرآن و حدیث کی اتبا ع کی جائے۔ یہی راہ نجات اور صراط مستقیم ہے اگر ایسا نہ کیا گیا اور ان کے کلمات ہی کو بنیاد دین ٹھہرا لیا گیا تو یہ اس آیت کے تحت ہوگا۔ ام لہم شرکٰوٓا شرعوا لہم من الدین ما لم باذن بہ اللہ ( الشوری : 21 ) کیا ان کے ایسے بھی شریک ہیں ( جو شریعت سازی میں خدا کی شرکت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ شریعت سازی دراصل محض ایک اللہ پاک کا کام ہے۔ ) جنہو ںنے دین کے نام پر ان کے لیے ایسی ایسی چیزوں کو شریعت کا نام دے دیا ہے جن کا اللہ پاک نے کوئی اذن نہیں دیا۔ صد افسوس کہ امت اس مرض میں ہزار سال سے بھی زائد عرصہ سے گرفتار ہے اور ابھی تک اس وباءسے شفائے کامل کے آثار نظر نہیں آتے۔ اللہم ارحم علی امۃ حبیبک صلی اللہ علیہ وسلم خود ہندو پاکستان میں دیکھ لیجئے ! کونے کونے میں نئی نئی بدعات، عجیب عجیب رسومات نظر آئیں گی۔ کہیں محرم میں تعزیہ سازی ہو رہی ہے تو کہیں کاغذی گھوڑے دوڑائے جارہے ہیں۔ کہیں قبروں پر غلافوں کے جلوس نکالے جارہے ہیں تو کہیں علم اٹھائے جارہے ہیں تعجب مزیدیہ کہ یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو رہا ہے۔ اس طرح اسلام کو بدنام کیا جارہا ہے۔ علماءہیں کہ منہ میں لگام لگائے بیٹھے ہیں۔ کچھ جواز تلاش کرنے کی دھن میں لگے رہتے ہیں کیوں کہ اس طرح باآسانی ان کی دکان چل سکتی ہے۔ ان اللہ و انا الیہ راجعون۔ حافظ ابن حجر کہتے ہیں : زاد الحاکم فی حدیث جابر فقال ہما علیک و فی مالک و المیت منہما بری قال نعم فصلی علیہ فجعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا لقی ابا قتادۃ یقول ما صنعت الدینار ان حتی کان اخر ذلک ان قال قد قضیتہا یا رسول اللہ قال الان حین بردت علیہ جلدہ و قد وقعت ہذہ القصۃ مرۃ اخری فروی۔ الدار قطنی من حدیث علی کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اذا اتی بجنازۃ لم یسال عن شی من عمل الرجل و یسال عن دینہ فان قیل علیہ دین کف و ان قیل لیس علیہ دین صلی فاتی بجنازۃ فلما قام لیکبر سال ہل علیہ دین؟ فقالوا دینار ان فعدل عنہ فقال علی ہما علی یا رسول اللہ وہوبری منہما فصلی علیہ ثم قال لعلی جزاک اللہ خیرا و فک اللہ رہناک ( فتح الباری ) یعنی حدیث جابر میں حاکم نے یوں زیادہ کیا ہے کہ میت کے قرض والے وہ دو دینار تیرے اوپر تیرے مال میں سے ادا کرنے واجب ہو گئے۔ اور میت ان سے بری ہو گیا۔ اس پرصحابہ نے کہا، ہاں یا رسول اللہ واقعہ یہی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میت پر نماز جنازہ پڑھائی۔ پس جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابوقتادہ سے ملاقات فرماتے آپ دریافت کرتے تھے کہ اے ابوقتادہ ! تمہارے ان دو دیناروں کا وعدہ کیا ہوا؟ یہاں تک کہ ابوقتادہ نے کہہ دیا کہ حضور ان کو میں ادا کر چکا ہوں۔ آپ نے فرمایا اب تم نے اس میت کی کھال کو ٹھنڈا کردیا۔ ایسا ہی واقعہ ایک مرتبہ اور بھی ہوا ہے جسے دارقطنی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی جنازہ لایا جاتا آپ اس کے کسی عمل کے بارے میں نہ پوچھتے مگر قرض سے متعلق ضرور پوچھتے۔ اگر اسے مقروض بتلایا جاتا تو آپ اس کا جنازہ نہ پڑھتے اور اگراس کے خلاف ہوتا تو آپ جناز پڑھا دیتے۔ پس ایک دن ایک جنازہ لایا گیا۔ جب آپ نماز کی تکبیر کہنے لگے تو پوچھا کہ کیا یہ مقروض ہے؟ کہا گیا کہ ہاں دو دینار کا مقروض ہے۔ پس آپ جنازہ پڑھنے سے رک گئے۔ یہاں تک کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ حضور وہ دو دینار میرے ذمہ ہیں۔ میں ادا کردوں گا۔ اور یہ میت ان سے بری ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور فرمایا کہ اے علی ! اللہ تم کو جزائے خیر دے، اللہ تم کو بھی تمہارے رہن سے آزاد کرے یعنی تم کو جنت عطا کرے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی میت مقروض ہو اور اس وجہ سے اس کے جنازے کی نماز نہ پڑھائی جارہی ہو تو اگرکوئی مسلمان اس کی مدد کرے اور اس کا قرضہ اپنے سر لے لے تو یہ بہت بڑا ثواب اور باعث رضائے خدا اور رسول ہے اور ا س حدیث کے ذیل میں داخل ہے کہ جو شخص اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کرے گا اللہ اس کی مدد کرے گا۔ خاص طور پر جب کہ وہ دنیا سے کوچ کر رہا ہے۔ ایسے وقت ایسی امداد بڑی اہمیت رکھتی ہے مگر بعض نام نہاد مسلمانوں کی عقلوں کا یہ حال ہے کہ وہ ایسی امداد پر ایک کوڑی خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ ویسے نام نمود کے لیے مردہ کی فاتحہ، تیجہ، چالیسواں، من گھڑت رسموں میں کتنا ہی روپیہ پانی کی طرح بہا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ رسوم ہیں جن کا قرآن وحدیث و اقوال صحابہ حتی کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بھی کوئی ثبوت نہیں ہے۔ مگر شکم پرور علماءنے ایسی رسموں کی حمایت میں ایک طوفان جدال کھڑا کر رکھا ہے۔ اور ان رسمو ںکو عین خوشنودی خدا و رسول صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں اور ان کے اثبات کے لیے آیا ت قرآنی و احادیث نبوی میں وہ وہ تاویلات فاسدہ کرتے ہیں کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے سچ ہے خود بدلتے نہیں قرآن کو بدل دیتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں فرمایا تھا۔ من احدث فی امرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد جو ہمارے دین میں ایسی نئی چیز نکالے جس کا ثبوت ہماری شریعت سے نہ ہو، وہ مردود ہے۔ ظاہر ہے کہ رسوم مروجہ نہ عہد رسالت میں تھیں نہ عہد صحابہ و تابعین میں جب کہ ان زمانوں میں مسلمان وفات پاتے تھے، شہید ہوتے تھے مگر ان میں کسی کے بھی تیجہ چالیسویں کا ثبوت نہیں حتی کہ خود حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے لیے بھی ثبوت نہیں کہ ان کا تیجہ، چالیسواں کیا گیا ہو۔ نہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تیجہ فاتحہ ثابت ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو اپنی طرف سے شریعت میں کمی بیشی کرنا، خود لعنت خداوندی میں گرفتار ہونا ہے۔ اعاذنا اللہ منہا آمین۔