كِتَابُ الإِجَارَةِ بَابُ مَا يُعْطَى فِي الرُّقْيَةِ عَلَى أَحْيَاءِ العَرَبِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ عَنْ أَبِي بِشْرٍ عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ فَاسْتَضَافُوهُمْ فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ فَقَالَ بَعْضُهُمْ لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ فَقَالُوا يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ فَقَالَ بَعْضُهُمْ نَعَمْ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدْ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنْ الْغَنَمِ فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ وَيَقْرَأُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ قَالَ فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمْ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ فَقَالَ بَعْضُهُمْ اقْسِمُوا فَقَالَ الَّذِي رَقَى لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ فَقَالَ وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ثُمَّ قَالَ قَدْ أَصَبْتُمْ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ سَمِعْتُ أَبَا الْمُتَوَكِّلِ بِهَذَا
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
باب : سورہ فاتحہ پڑھ کر عربوں پر پھونکنا اور اس پر اجرت لے لینا
ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے ابوبشر نے بیان کیا، ان سے ابوالمتوکل نے بیان کیا، اور ان سے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنالیں، لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی، لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آکر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے اور کہا کہ بھائیو ! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پا س کوئی چیز دم کرنے کی ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا، آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد للہ رب العالمین پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی۔ وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کردی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کرلو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر پہلے ہم آپ سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔ چنانچہ سب حضرات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ شعبہ نے کہا کہ ابوالبشر نے ہم سے بیان کیا، انہوں نے ابوالمتوکل سے ایسا ہی سنا۔
تشریح :
مجتہد مطلق، امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ا س باب اور روایت کردہ حدیث کے تحت بہت سے مسائل جمع فرما دیئے ہیں۔ اصحاب نبوی چوں کہ سفر میں تھے اور اس زمانے میں ہوٹلوں کا کوئی دستور نہ تھا۔ عربو ںمیں مہمان نوازی ہی سب سے بڑی خوبی تھی۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک رات کی مہمانی کے لیے قبیلہ والوں سے درخواست کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور یہ اتفاق کی بات ہے کہ اسی اثنا میں ان قبیلے والوں کا سردار سانپ یا بچھو سے کاٹا گیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سردار کی عقل میں فتور آگیا تھا۔ بہرحال جو بھی صورت ہو وہ قبیلہ والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پا س آکر دم جھاڑ کے لیے متمنی ہوئے اور حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے آمادگی ظاہر فرمائی اور اجرت میں تیس بکریوں پر معاملہ طے ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس سردار پر سات بار یا تین بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ اور وہ سردار اللہ کے حکم سے تندرست ہو گیا اور قبیلہ والوں نے بکریاں پیش کر دیں جن کی اطلاع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تائید فرمائی اور ساتھ ہی ان کی دلجوئی کے لیے بکریوں کی تقسیم میں اپنا حصہ مقرر کرنے کا بھی ارشاد فرمایا۔ شعبہ کی روایت کو ترمذی نے وصل کیا ہے اس لفظ کے ساتھ۔ اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی طب میں عنعنہ کے ساتھ ذکرکیا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی آیتوں اوراسی طرح دیگر اذکار و ادعیہ ماثورہ کے ساتھ دم کرنا درست ہے۔ دیگر روایت میں صاف مذکور ہے لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو دم جھاڑا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جو لوگ شرکیہ لفظوں سے اور پیروں فقیروں کے نام سے منتر جنتر کرتے ہیں، وہ عند اللہ مشرک ہیں۔ ایک موحد مسلمان کو ہرگز ایسے ڈھکوسلوں میں نہ آنا چاہئے اور ایسے مشرک و مکار تعویذ و منتر والوں سے دور رہنا چاہئے کہ آج کل ایسے لوگوں کے ہتھکنڈے بہت کثرت کے ساتھ چل رہے ہیں۔
اس حدیث سے بعض علماءنے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت کیا ہے۔ صاحب المہذب لکھتے ہیں : و من ادلۃ الجواز حدیث عمر المتقدم فی کتاب الزکوٰۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ ما اتاک من ہذا المال من غیر مسئلۃ و لا اشراف نفس فخذہ و من ادلۃ الجواز حدیث الرقیۃ المشہور الذی اخرجہ البخاری عن ابی عباس و فیہ ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ( ص 268 )
اور جواز کے دلائل میں سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ ہے جو کتاب الزکوۃ میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ اس مال میں سے جو تمہارے پاس بغیر سوال کئے اور بغیر تانکے جھانکے خود آئے، اس کو قبول کرلو اور جواز کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں دم کرنے کا واقعہ مذکور ہے جس کو امام بخاری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا ہے اوراس میں یہ بھی ہے کہ بلاشک جس پر تم بطور اجر لینے کا حق رکھتے ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔
صاحب لمعات لکھتے ہیں و فیہ دلیل علی ان الرقیۃ بالقران و اخذ الاجرۃ علیہا جائز بلا شبھۃ یعنی اس میں اس پر دلیل ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ دم کرنا اور اس پر اجرت لینا بلاشبہ جائز ہے۔
ایسا ہی واقعہ مسند امام احمد اور ابوداؤد میں خارجۃ بن صلت عن عمہ کی روایت سے مذکور ہے راوی کہتے ہیں اقبلنا من عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم فاتینا علی حی من العرب فقالوا نا انبئنا انکم قد جئتم من عند ہذا الرجل بخیر فہل عندکم من دواء اور قیۃ فان عندنا معتوہا فی القیود فقلنا نعم فجاوا بمعتوہ فی القیود فقرات علیہ بفاتحۃ الکتاب ثلاثۃ ایام غدوۃ و عشیۃ اجمع بزاقی ثم اتفل قال فکانما انشط من عقال فاعطونی جعلا فقلت لا حتی اسال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال کل فلعمری لمن اکل برقیۃ باطل لقد اکلت برقیۃ حق ( رواہ احمد و ابوداود )
مختصر مطلب یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے جدا ہو کر ایک عرب قبیلہ پر سے گزرے۔ ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تم اس آدمی کے پاس سے کچھ نہ کچھ خیر لے کر آئے ہو۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید اور ذکر اللہ سیکھ کر آئے ہو۔ ہمارے ہاں ایک دیوانہ بیڑیوں میں مقید ہے۔ تمہارے پاس کوئی دوا یا دم جھاڑ ہو تو مہربانی کرو۔ ہم نے کہا کہ ہاں ! ہم موجود ہیں۔ پس وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک آدمی کو لائے اور میں نے ا س پر صبح و شام تین روز تک برابر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ میں یہ سورۃ پڑھ پرھ کر اپنے منہ میں تھوک جمع کرکے اس پر دم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ مریض اتنا آزاد ہو گیا کہ جتنا اونٹ اس کی رسی کھولنے سے آزاد ہوجاتاہے یعنی وہ تندرست ہو گیا۔ پس ان قبیلہ والوں نے مجھ کو اجرت دینا چاہی تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ لوگ تو جھوٹ موٹ فریب دے کر دم جھاڑا سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں، تم نے تو حق اور سچا دم کیا ہے جس پر کھانا حق ہے جو حلال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک کے بہانہ سے غلط قسم کے لوگوں کی کثرت بھی پہلے ہی سے چلی آرہی ہے۔ اور بہت سے نادان لوگ اپنی طبعی کمزوری کی بناءپر ایسے لوگوں کا شکار بنتے چلے آرہے ہیں۔ تاریخ میں اقوام قدیم کلدانیوں، مصریوں، سامیو ںوغیرہ وغیرہ کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ وہ لوگ بیشتر تعداد میں دم، جھاڑ، پھونک پھانک منتر، جنتر کرنے والو ںکے زبردست معتقد ہوتے تھے۔ اکثر تو موت و حیات تک کو ایسے ہی مکار دم جھاڑ کرنے والو ںکے ہاتھوں میں جانتے تھے۔ صد افسوس کہ امت مسلمہ بھی ان بیماریوں سے نہ بچ سکی اور ان میں بھی منتر جنتر کے ناموں پر کتنے ہی شرکیہ طور طریقے جاری ہو گئے۔ اور اب بھی بکثرت عوام ایسے ہی مکار لوگوں کا شکار ہیں۔ کتنے ہیں نقش و تعویذ لکھنے والے صرف ہندسوں سے کام چلاتے ہیں۔ جن کو خود ان ہندسوں کی حقیقت کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا۔ کتنے ہی صرف پیروں، درویشوں، فوت شدہ بزرگوں کے نالکھ کر دے دیتے ہیں۔ کتنے یا جبرئیل، یا میکائیل یا عزرائیل لکھ کر استعمال کراتے ہیں۔ کتنے من گھڑت شرکیہ دعائیں لکھ کر خود مشرک بنتے اور دوسروں کو مشرک بناتے ہیں کتنے حضرت پیر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کی دہائی لکھ کر لوگوں کو بہکاتے رہتے ہیں۔ الغرض مسلمانوںکی ایک کثیر تعداد ایسے ہتھکنڈوں کی شکار ہے، پھر ان تعویذ گنڈہ کرنے والے اور لوگوں کا مال اس دھوکہ فریب سے کھانے والے غور کریں کہ وہ اللہ اورا س کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن کیا منہ دکھلائیں گے۔
آج 29 ذی الحجہ1389ھ کو مقام ابراہیم کے قریب بوقت مغرب یہ نوٹ لکھا گیا۔ اور بعونہ تعالیٰ2 صفر1390ھ کو مدینہ منورہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چپوترہ پر بیٹھ کر نظر ثانی کی گئی۔
مجتہد مطلق، امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ا س باب اور روایت کردہ حدیث کے تحت بہت سے مسائل جمع فرما دیئے ہیں۔ اصحاب نبوی چوں کہ سفر میں تھے اور اس زمانے میں ہوٹلوں کا کوئی دستور نہ تھا۔ عربو ںمیں مہمان نوازی ہی سب سے بڑی خوبی تھی۔ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک رات کی مہمانی کے لیے قبیلہ والوں سے درخواست کی مگر انہوں نے انکار کر دیا اور یہ اتفاق کی بات ہے کہ اسی اثنا میں ان قبیلے والوں کا سردار سانپ یا بچھو سے کاٹا گیا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک قول نقل کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سردار کی عقل میں فتور آگیا تھا۔ بہرحال جو بھی صورت ہو وہ قبیلہ والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پا س آکر دم جھاڑ کے لیے متمنی ہوئے اور حدیث ہذا کے راوی حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ نے آمادگی ظاہر فرمائی اور اجرت میں تیس بکریوں پر معاملہ طے ہوا۔ چنانچہ انہوں نے اس سردار پر سات بار یا تین بار سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ اور وہ سردار اللہ کے حکم سے تندرست ہو گیا اور قبیلہ والوں نے بکریاں پیش کر دیں جن کی اطلاع صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کی۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تائید فرمائی اور ساتھ ہی ان کی دلجوئی کے لیے بکریوں کی تقسیم میں اپنا حصہ مقرر کرنے کا بھی ارشاد فرمایا۔ شعبہ کی روایت کو ترمذی نے وصل کیا ہے اس لفظ کے ساتھ۔ اور حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی طب میں عنعنہ کے ساتھ ذکرکیا ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قرآن مجید کی آیتوں اوراسی طرح دیگر اذکار و ادعیہ ماثورہ کے ساتھ دم کرنا درست ہے۔ دیگر روایت میں صاف مذکور ہے لا باس بالرقی مالم یکن فیہ شرک شرکیہ الفاظ نہ ہوں تو دم جھاڑا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر جو لوگ شرکیہ لفظوں سے اور پیروں فقیروں کے نام سے منتر جنتر کرتے ہیں، وہ عند اللہ مشرک ہیں۔ ایک موحد مسلمان کو ہرگز ایسے ڈھکوسلوں میں نہ آنا چاہئے اور ایسے مشرک و مکار تعویذ و منتر والوں سے دور رہنا چاہئے کہ آج کل ایسے لوگوں کے ہتھکنڈے بہت کثرت کے ساتھ چل رہے ہیں۔
اس حدیث سے بعض علماءنے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کا جواز ثابت کیا ہے۔ صاحب المہذب لکھتے ہیں : و من ادلۃ الجواز حدیث عمر المتقدم فی کتاب الزکوٰۃ ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لہ ما اتاک من ہذا المال من غیر مسئلۃ و لا اشراف نفس فخذہ و من ادلۃ الجواز حدیث الرقیۃ المشہور الذی اخرجہ البخاری عن ابی عباس و فیہ ان احق ما اخذتم علیہ اجرا کتاب اللہ ( ص 268 )
اور جواز کے دلائل میں سے حدیث عمر رضی اللہ عنہ ہے جو کتاب الزکوۃ میں گزر چکی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا تھا کہ اس مال میں سے جو تمہارے پاس بغیر سوال کئے اور بغیر تانکے جھانکے خود آئے، اس کو قبول کرلو اور جواز کی دلیل وہ حدیث بھی ہے جس میں دم کرنے کا واقعہ مذکور ہے جس کو امام بخاری نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نکالا ہے اوراس میں یہ بھی ہے کہ بلاشک جس پر تم بطور اجر لینے کا حق رکھتے ہو وہ اللہ کی کتاب ہے۔
صاحب لمعات لکھتے ہیں و فیہ دلیل علی ان الرقیۃ بالقران و اخذ الاجرۃ علیہا جائز بلا شبھۃ یعنی اس میں اس پر دلیل ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ دم کرنا اور اس پر اجرت لینا بلاشبہ جائز ہے۔
ایسا ہی واقعہ مسند امام احمد اور ابوداؤد میں خارجۃ بن صلت عن عمہ کی روایت سے مذکور ہے راوی کہتے ہیں اقبلنا من عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ ولسم فاتینا علی حی من العرب فقالوا نا انبئنا انکم قد جئتم من عند ہذا الرجل بخیر فہل عندکم من دواء اور قیۃ فان عندنا معتوہا فی القیود فقلنا نعم فجاوا بمعتوہ فی القیود فقرات علیہ بفاتحۃ الکتاب ثلاثۃ ایام غدوۃ و عشیۃ اجمع بزاقی ثم اتفل قال فکانما انشط من عقال فاعطونی جعلا فقلت لا حتی اسال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال کل فلعمری لمن اکل برقیۃ باطل لقد اکلت برقیۃ حق ( رواہ احمد و ابوداود )
مختصر مطلب یہ ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے جدا ہو کر ایک عرب قبیلہ پر سے گزرے۔ ان لوگوں نے ہم سے کہا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ تم اس آدمی کے پاس سے کچھ نہ کچھ خیر لے کر آئے ہو۔ یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن مجید اور ذکر اللہ سیکھ کر آئے ہو۔ ہمارے ہاں ایک دیوانہ بیڑیوں میں مقید ہے۔ تمہارے پاس کوئی دوا یا دم جھاڑ ہو تو مہربانی کرو۔ ہم نے کہا کہ ہاں ! ہم موجود ہیں۔ پس وہ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک آدمی کو لائے اور میں نے ا س پر صبح و شام تین روز تک برابر سورۃ فاتحہ پڑھ کر دم کیا۔ میں یہ سورۃ پڑھ پرھ کر اپنے منہ میں تھوک جمع کرکے اس پر دم کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ مریض اتنا آزاد ہو گیا کہ جتنا اونٹ اس کی رسی کھولنے سے آزاد ہوجاتاہے یعنی وہ تندرست ہو گیا۔ پس ان قبیلہ والوں نے مجھ کو اجرت دینا چاہی تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی۔ آپ نے فرمایا کہ لوگ تو جھوٹ موٹ فریب دے کر دم جھاڑا سے لوگوں کا مال کھاتے ہیں، تم نے تو حق اور سچا دم کیا ہے جس پر کھانا حق ہے جو حلال ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جھاڑ پھونک کے بہانہ سے غلط قسم کے لوگوں کی کثرت بھی پہلے ہی سے چلی آرہی ہے۔ اور بہت سے نادان لوگ اپنی طبعی کمزوری کی بناءپر ایسے لوگوں کا شکار بنتے چلے آرہے ہیں۔ تاریخ میں اقوام قدیم کلدانیوں، مصریوں، سامیو ںوغیرہ وغیرہ کے حالات پڑھنے سے معلوم ہوگا کہ وہ لوگ بیشتر تعداد میں دم، جھاڑ، پھونک پھانک منتر، جنتر کرنے والو ںکے زبردست معتقد ہوتے تھے۔ اکثر تو موت و حیات تک کو ایسے ہی مکار دم جھاڑ کرنے والو ںکے ہاتھوں میں جانتے تھے۔ صد افسوس کہ امت مسلمہ بھی ان بیماریوں سے نہ بچ سکی اور ان میں بھی منتر جنتر کے ناموں پر کتنے ہی شرکیہ طور طریقے جاری ہو گئے۔ اور اب بھی بکثرت عوام ایسے ہی مکار لوگوں کا شکار ہیں۔ کتنے ہیں نقش و تعویذ لکھنے والے صرف ہندسوں سے کام چلاتے ہیں۔ جن کو خود ان ہندسوں کی حقیقت کا بھی کوئی علم نہیں ہوتا۔ کتنے ہی صرف پیروں، درویشوں، فوت شدہ بزرگوں کے نالکھ کر دے دیتے ہیں۔ کتنے یا جبرئیل، یا میکائیل یا عزرائیل لکھ کر استعمال کراتے ہیں۔ کتنے من گھڑت شرکیہ دعائیں لکھ کر خود مشرک بنتے اور دوسروں کو مشرک بناتے ہیں کتنے حضرت پیر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ کے نام کی دہائی لکھ کر لوگوں کو بہکاتے رہتے ہیں۔ الغرض مسلمانوںکی ایک کثیر تعداد ایسے ہتھکنڈوں کی شکار ہے، پھر ان تعویذ گنڈہ کرنے والے اور لوگوں کا مال اس دھوکہ فریب سے کھانے والے غور کریں کہ وہ اللہ اورا س کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت کے دن کیا منہ دکھلائیں گے۔
آج 29 ذی الحجہ1389ھ کو مقام ابراہیم کے قریب بوقت مغرب یہ نوٹ لکھا گیا۔ اور بعونہ تعالیٰ2 صفر1390ھ کو مدینہ منورہ مسجد نبوی میں اصحاب صفہ کے چپوترہ پر بیٹھ کر نظر ثانی کی گئی۔