‌صحيح البخاري - حدیث 2266

كِتَابُ الإِجَارَةِ بَابُ الأَجِيرِ فِي الغَزْوِ صحيح قَالَ ابْنُ جُرَيْجٍ وَحَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ جَدِّهِ بِمِثْلِ هَذِهِ الصِّفَةِ أَنَّ رَجُلًا عَضَّ يَدَ رَجُلٍ فَأَنْدَرَ ثَنِيَّتَهُ فَأَهْدَرَهَا أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2266

کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان باب : جہاد میں کسی کومزدور کرکے لے جانا ابن جریج نے کہا اور مجھ سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا اور ان سے ان کے دادا نے بالکل اسی طرح کا واقعہ بیان کیا کہ ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کا ہاتھ کاٹ کھایا۔ ( دوسرے نے اپنا ہاتھ کھینچا تو ) اس کاٹنے والے کا دانت ٹوٹ گیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کا کوئی قصاص نہیں دلوایا۔
تشریح : باب کا مضمون اس سے ظاہر ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے جنگ تبوک کے سفر میں اپنے ساتھ ایک اور آدمی کو بطور مزدور ساتھ لگا لیا تھا۔ حدیث میں جنگ تبوک کا ذکر ہے جس کو جیش العسرۃ بھی کہا گیا ہے۔ الحمد للہ مدینۃ المنورۃ میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ یہاں سے تبوک کئی سو میل کے فاصلہ پر اردن کے راستے پر واقع ہے۔ اور حکومت سعودیہ ہی کا یہ ایک ضلع ہے۔ شام کے عیسائیوں نے یہاں سرحد پر اسلام کے خلاف ایک جنگی منصوبہ بنایا تھا جس کی بروقت اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو کئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدافعت کے لیے پیش قدمی فرمائی۔ جس کی خبر پاکر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ یہ سفر عین موسم گرما کے شباب میں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلمان مجاہدین کو بہت سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ سورۃ توبہ کی گئی آیات میں اس کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ان منافقین کا بھی جو اس امتحان میں حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔ جن کے متعلق آیت یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیہم ( التوبہ : 94 ) نازل ہوئی۔ مگر چند مخلص مومن بھی تھے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئے تھے۔ بعد میں ان کی توبہ قبول ہوئی۔ الحمد للہ آج 22 صفر کو مسجد نبوی میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔ باب کا مضمون اس سے ظاہر ہے کہ حضرت یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ نے جنگ تبوک کے سفر میں اپنے ساتھ ایک اور آدمی کو بطور مزدور ساتھ لگا لیا تھا۔ حدیث میں جنگ تبوک کا ذکر ہے جس کو جیش العسرۃ بھی کہا گیا ہے۔ الحمد للہ مدینۃ المنورۃ میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھ رہا ہوں۔ یہاں سے تبوک کئی سو میل کے فاصلہ پر اردن کے راستے پر واقع ہے۔ اور حکومت سعودیہ ہی کا یہ ایک ضلع ہے۔ شام کے عیسائیوں نے یہاں سرحد پر اسلام کے خلاف ایک جنگی منصوبہ بنایا تھا جس کی بروقت اطلاع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہو کئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدافعت کے لیے پیش قدمی فرمائی۔ جس کی خبر پاکر عیسائیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ یہ سفر عین موسم گرما کے شباب میں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے مسلمان مجاہدین کو بہت سے تکالیف کا سامنا کرنا پڑا۔ سورۃ توبہ کی گئی آیات میں اس کا ذکر ہے۔ ساتھ ہی ان منافقین کا بھی جو اس امتحان میں حیلے بہانے کرکے پیچھے رہ گئے تھے۔ جن کے متعلق آیت یعتذرون الیکم اذا رجعتم الیہم ( التوبہ : 94 ) نازل ہوئی۔ مگر چند مخلص مومن بھی تھے جو پیچھے رہنے والوں میں رہ گئے تھے۔ بعد میں ان کی توبہ قبول ہوئی۔ الحمد للہ آج 22 صفر کو مسجد نبوی میں بیٹھ کر یہ نوٹ لکھا گیا۔