كِتَابُ الإِجَارَةِ بَابُ اسْتِئْجَارُ الرَّجُلِ الصَّالِحِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ قُرَّةَ بْنِ خَالِدٍ قَالَ حَدَّثَنِي حُمَيْدُ بْنُ هِلَالٍ حَدَّثَنَا أَبُو بُرْدَةَ عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَقْبَلْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَعِي رَجُلَانِ مِنْ الْأَشْعَرِيِّينَ فَقُلْتُ مَا عَمِلْتُ أَنَّهُمَا يَطْلُبَانِ الْعَمَلَ فَقَالَ لَنْ أَوْ لَا نَسْتَعْمِلُ عَلَى عَمَلِنَا مَنْ أَرَادَهُ
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
باب : کسی بھی نیک مرد کو مزدوری پر لگانا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، ان سے قرۃ بن خالد نے کہا کہ مجھ سے حمید بن ہلال نے بیان کیا، ان سے ابوبردہ نے بیان کیا اور ان سے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا۔ میرے ساتھ ( میرے قبیلہ ) اشعر کے دو مرد اور بھی تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ یہ دونوں صاحبان حاکم بننے کے طلب گار ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص حاکم بننے کا خود خواہش مند ہو، اسے ہم ہرگز حاکم نہیں بنائیں گے۔ ( یہاں راوی کو شک ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ لن یا لفظ لا استعمال فرمایا )
تشریح :
لفظ ”اجارات“ اجارۃ کی جمع ہے۔ اجارہ لغت میں اجرت یعنی اس مزدوری کو کہتے ہیں جو کسی مقررہ خدمت پر جو مقررہ مدت تک انجام دی گئی ہو، اس کام کے کرنے والے کو دینا، وہ نقد یا جنس جس مقررہ صورت میں ہو۔ مزدوری پر اگر کسی نیک اچھے امانت دار آدمی کو رکھا جائے تو کام کرانے والے کی یہ عین خوش قسمتی ہے کہ مزدور اللہ سے ڈر کر پورا حق ادا کرے گا اور کسی کوتاہی سے کام نہ لے گا۔ باب استیجار الرجل الصالح منعقد کرنے سے پہلے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کے لیے مزدوری کرنا کوئی شرم اور عار کی بات نہیں ہے اور نیک صالح لوگو ںسے مزدوری پر کام کرانا بھی کوئی بری با ت نہیں ہے بلکہ ہر دو کے لیے باعث برکت اور اجر و ثواب ہے۔
اس سلسلہ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت ان خیر من استاجرت نقل فرما کر اپنے مقصد کے لیے مزید وضاحت فرمائی ہے اور بتلایا ہے کہ مزدوری کے لئے کوئی طاقتور آدمی جو امانت دار بھی ہو مل جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔ باری تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی کی زبان پر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے گھر پہنچ کر یہ کہا کہ ابا جان ! ایسا زبردست اور امانت دار نوکر اور کوئی نہیں ملے گا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے پوچھا کہ تجھے کیو ںکر معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پتھر جس کو دس آدمی مشکل سے اٹھاتے تھے، اس جوان یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اکیلے اٹھا کر پھینک دیا اور میں اس کے آگے چل رہی تھی۔ حیا دار اتنا ہے کہ میرا کپڑا ہوا سے اڑنے لگا تو اس نے کہا میرے پیچھے ہو کر چلو۔ اور اگر میں غلط راستے پر چلنے لگوں تو پیچھے سے ایک کنکری سیدھے راستے پر پھینک دینا۔ اس سے سمجھ کر سیدھا راستہ جان لوں گااور اسی پر چلوں گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ عین عالم شباب تھا اور حیا اور شرم کا یہ عالم اور خدا ترسی کا یہ حال کہ دختر شعیب علیہ السلام کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی مناسب نہ جانا۔ اسی بناءاس لڑکی نے حضرت شعیب علیہ السلام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان شاندار لفظوں میں تعارف کرایا۔ بہرحال امیر المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہسلسلہ کتاب البیوع اجارات یعنی مزدوری کرنے سے متعلق جملہ مسائل تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
باب کے آخر میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص از خود نوکر یا حاکم بننے کی درخواست کرے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے وسائل ڈھونڈھے، بادشاہ اور حاکم وقت کا فرض ہے کہ ایسے حریص آدمی کو ہرگز حاکم نہ بنائے اور جو نوکری سے بھاگے اس کو اس نوکری پر مقرر کرنا چاہئے بشرطیکہ وہ اس کا اہل بھی ہو۔ وہ ضرور ایمانداری اورخیر خواہی سے کام کرے گا، لیکن یہ اصول صرف اسلامی پاکیزہ ہدایات سے متعلق ہے جس کو عہد خلافت راشدہ ہی میں شاید برتا گیا ہو۔ ورنہ اب تو کوئی اہل ہو یا نہ ہو محض خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اور اس زمانہ میں تو نوکری کا حاصل کرنا اور اس کے لیے دفاتر کی خاک چھاننا ایک عام فیشن ہو گیا ہے۔
مسلم شریف کتاب الامارت میں یہی حدیث مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں : قال العلماءو الحکمۃ فی انہ لا یولی من سال الولایۃ انہ یوکل الیہا و لا تکون معہ اعانۃ کما صرح بہ فی حدیث عبدالرحمن بن سمرۃ السابق و اذا لم تکن معہ اعانۃ لم یکن کفئا و لا یولی غیر الکف و لان فیہ تمہۃ للطالب و الحرص ( نووی ) یعنی طلب گار کو امارت نہ دی جائے، اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ امارت پر مقرر کیا جائے گا مگر اس کو اعانت حاصل نہ ہوگی، جیسا کہ حدیث عبدالرحمن بن سمرہ میں صراحت ہے۔ اور جب اس کو اعانت نہ ملے گی تو اس کا مطلب یہ کہ وہ اس کا اہل ثابت نہ ہوگا۔ اور ایسے آدمی کو امیر نہ بنایا جائے اوراس میں طلب گار کے لیے خود تہمت بھی ہے اور اظہار حرص بھی۔ علماءنے اس کی صراحت کی ہے۔
حدیث ہذا کے آخر میں خزانچی کا ذکر آیا ہے جس سے حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ خزانچی بھی ایک قسم کا نوکر ہی ہے وہ امانت داری سے کام کرے گا تو اس کو بھی اجر و ثواب ہی ملے گا جتنا کہ مالک کو ملے گا۔ خزانچی کا امین ہونا بہت ہی اہم ہے ورنہ بہت سے نقصانات کا احتمال ہوسکتا ہے۔ اس کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آئے گی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و قد روی ابن جریر من طریق شعیب الجبئی انہ قال اسم المراۃ التی تزوجہا موسی صفورہ و اسم اختہا لیا و کذ روی من طریق ابن اسحاق الا انہ قال اسم اختہا شرقا و قیل لیا و قال غیرہ ان اسمہما صفورا و عبرا و انہما کانتا تواما و روی من طریق علی بن ابی طلحۃ عن ابن عباس فی قولہ ان خیر من استاجرت القوی الامین قال قوی فیما ولی امین فیما استودع و روی من طریق ابن عباس و مجاہد فی آخرین ان اباہا سالہا عمارات من قوتہ و امانتہ فذکرت قوتہ فی حال السقی و امانتہ فی غض طرفہ عنہما و قولہ لھا امشی خلفی و دلینی علی الطریق و ہذا اخرجہ البیہقی باسناد صحیح عن عمر بن الخطاب و زاد فیہ فزوجہ واقام موسی معہ یکفیہ او یعمل لہ فی رعایۃ غنمہ ( فتح الباری )
دختر حضرت شعیب علیہ السلام کی تفصیلات کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس عورت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شادی کی تھی اس کا نام صفورہ تھا اور اس کی دوسری بہن کا نام ”لیا“ تھا۔ بعض نے دوسری بہن کا نام شرقا بتلایا ہے۔ اور بعض نے ”الیا“ اور بعض نے کوئی اور نام بتلایا ہے اور بعض کی تحقیق یہ کہ پہلی کا نام صفورہ اور دوسری بہن کا نام عبرا تھا۔ اور یہ دونوں جوڑ کے ساتھ بیک وقت پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت شریفہ ان خیر من استاجرت کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ قوی ( طاقتور ) ان امور کے لیے جن کا ان کو ذمہ دار والی بنایا جائے۔ اور امین ( امانت دار ) ان چیزوں کے لیے جو اس کو سونپی جائیں۔ اور ابن عبا س رضی اللہ عنہما اور مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ اس کے والد نے اپنی لڑکی سے پوچھا کہ تم نے اس کی قوت اور امانت کے متعلق کیا دیکھا۔ تو انہوں نے بکریوں کو پانی پلانے کے سلسلہ میں ان کی قوت کا بیان کیا۔ اور امانت کا ان کی آنکھوں کو نیچا کرنے کے سلسلہ میں جب کہ وہ آگے چل رہی تھی اور قدم کا بعض حصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نظر آگیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ کہ میرے پیچھے پیچھے چلو اور راستہ سے مجھ کومطلع کرتی چلو۔ پس حضرت شعیب علیہ السلام نے اس لڑکی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نکاح کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کواپنے ساتھ اپنی خدمت کے لیے نیز بکریاں چرانے کے لیے ٹھہرایا۔ جیسا کہ آٹھ سال کے لیے طے کیا گیا تھا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو سال اوراپنی طرف سے بڑھا دیئے۔ اس طرح پورے دس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں مقیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
حدیث عتبہ بن منذر میں مروی ہے قال کنا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان موسی اجر نفسہ ثمان سنین او عشرا علی عفۃ فرجہ و طعام بطنہ اخرجہ ابن ماجہ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ سال یا دس سال کے لیے اپنے نفس کو حضرت شعیب علیہ السلام کی ملازت کے سپرد کر دیا تاکہ آپ شکم پری کے ساتھ ازداوجی زندگی میں عفت کی زندگی گزار سکیں۔
المجموع شرح المہذب للاستاذالمحقق محمد نجیب المطیعی میں کتاب الاجارہ کے ذیل میں لکھا ہے یجوز عقد الاجارۃ علی المنافع المباحۃ و الدلیل علیہ قولہ تعالیٰ فان ارضعن لکم فاتوہن اجورہن ( الجزءالرابع عشر ص255 ) یعنی منافع مباح کے اوپر مزدوری کرنا جائز ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے کہ اگر وہ مطلقہ عورتیں تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کی مزدوری ادا کردو۔ معلوم ہوا کہ مزدروی کرنے کرانے کا ثبوت کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ہے اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ اسے شرافت کے خلاف سمجھا جائے جیسا کہ بعض غلط قسم کے لوگوں کا تصور ہوتا ہے اور آج تو مزدوروں کی دنیا ہے، ہر طرف مزدروں کی تنظیم ہیں۔ مزدور آج کے دور میں دنیا پر حکومت کر رے ہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔
لفظ ”اجارات“ اجارۃ کی جمع ہے۔ اجارہ لغت میں اجرت یعنی اس مزدوری کو کہتے ہیں جو کسی مقررہ خدمت پر جو مقررہ مدت تک انجام دی گئی ہو، اس کام کے کرنے والے کو دینا، وہ نقد یا جنس جس مقررہ صورت میں ہو۔ مزدوری پر اگر کسی نیک اچھے امانت دار آدمی کو رکھا جائے تو کام کرانے والے کی یہ عین خوش قسمتی ہے کہ مزدور اللہ سے ڈر کر پورا حق ادا کرے گا اور کسی کوتاہی سے کام نہ لے گا۔ باب استیجار الرجل الصالح منعقد کرنے سے پہلے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک غرض یہ بھی ہے کہ نیک لوگوں کے لیے مزدوری کرنا کوئی شرم اور عار کی بات نہیں ہے اور نیک صالح لوگو ںسے مزدوری پر کام کرانا بھی کوئی بری با ت نہیں ہے بلکہ ہر دو کے لیے باعث برکت اور اجر و ثواب ہے۔
اس سلسلہ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے آیت ان خیر من استاجرت نقل فرما کر اپنے مقصد کے لیے مزید وضاحت فرمائی ہے اور بتلایا ہے کہ مزدوری کے لئے کوئی طاقتور آدمی جو امانت دار بھی ہو مل جائے تو یہ بہت بہتر ہے۔ باری تعالیٰ نے آیت مذکورہ میں حضرت شعیب علیہ السلام کی صاحبزادی کی زبان پر فرمایا ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے گھر پہنچ کر یہ کہا کہ ابا جان ! ایسا زبردست اور امانت دار نوکر اور کوئی نہیں ملے گا۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے پوچھا کہ تجھے کیو ںکر معلوم ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پتھر جس کو دس آدمی مشکل سے اٹھاتے تھے، اس جوان یعنی موسیٰ علیہ السلام نے اکیلے اٹھا کر پھینک دیا اور میں اس کے آگے چل رہی تھی۔ حیا دار اتنا ہے کہ میرا کپڑا ہوا سے اڑنے لگا تو اس نے کہا میرے پیچھے ہو کر چلو۔ اور اگر میں غلط راستے پر چلنے لگوں تو پیچھے سے ایک کنکری سیدھے راستے پر پھینک دینا۔ اس سے سمجھ کر سیدھا راستہ جان لوں گااور اسی پر چلوں گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا یہ عین عالم شباب تھا اور حیا اور شرم کا یہ عالم اور خدا ترسی کا یہ حال کہ دختر شعیب علیہ السلام کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا بھی مناسب نہ جانا۔ اسی بناءاس لڑکی نے حضرت شعیب علیہ السلام سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ان شاندار لفظوں میں تعارف کرایا۔ بہرحال امیر المحدثین امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بہسلسلہ کتاب البیوع اجارات یعنی مزدوری کرنے سے متعلق جملہ مسائل تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔
باب کے آخر میں ایک قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص از خود نوکر یا حاکم بننے کی درخواست کرے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے وسائل ڈھونڈھے، بادشاہ اور حاکم وقت کا فرض ہے کہ ایسے حریص آدمی کو ہرگز حاکم نہ بنائے اور جو نوکری سے بھاگے اس کو اس نوکری پر مقرر کرنا چاہئے بشرطیکہ وہ اس کا اہل بھی ہو۔ وہ ضرور ایمانداری اورخیر خواہی سے کام کرے گا، لیکن یہ اصول صرف اسلامی پاکیزہ ہدایات سے متعلق ہے جس کو عہد خلافت راشدہ ہی میں شاید برتا گیا ہو۔ ورنہ اب تو کوئی اہل ہو یا نہ ہو محض خویش پروری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ اور اس زمانہ میں تو نوکری کا حاصل کرنا اور اس کے لیے دفاتر کی خاک چھاننا ایک عام فیشن ہو گیا ہے۔
مسلم شریف کتاب الامارت میں یہی حدیث مزید تفصیل کے ساتھ موجود ہے علامہ نووی رحمۃ اللہ علیہ اس کے ذیل میں فرماتے ہیں : قال العلماءو الحکمۃ فی انہ لا یولی من سال الولایۃ انہ یوکل الیہا و لا تکون معہ اعانۃ کما صرح بہ فی حدیث عبدالرحمن بن سمرۃ السابق و اذا لم تکن معہ اعانۃ لم یکن کفئا و لا یولی غیر الکف و لان فیہ تمہۃ للطالب و الحرص ( نووی ) یعنی طلب گار کو امارت نہ دی جائے، اس میں حکمت یہ ہے کہ وہ امارت پر مقرر کیا جائے گا مگر اس کو اعانت حاصل نہ ہوگی، جیسا کہ حدیث عبدالرحمن بن سمرہ میں صراحت ہے۔ اور جب اس کو اعانت نہ ملے گی تو اس کا مطلب یہ کہ وہ اس کا اہل ثابت نہ ہوگا۔ اور ایسے آدمی کو امیر نہ بنایا جائے اوراس میں طلب گار کے لیے خود تہمت بھی ہے اور اظہار حرص بھی۔ علماءنے اس کی صراحت کی ہے۔
حدیث ہذا کے آخر میں خزانچی کا ذکر آیا ہے جس سے حضرت امام بخاری رحمۃاللہ علیہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ خزانچی بھی ایک قسم کا نوکر ہی ہے وہ امانت داری سے کام کرے گا تو اس کو بھی اجر و ثواب ہی ملے گا جتنا کہ مالک کو ملے گا۔ خزانچی کا امین ہونا بہت ہی اہم ہے ورنہ بہت سے نقصانات کا احتمال ہوسکتا ہے۔ اس کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر آئے گی۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و قد روی ابن جریر من طریق شعیب الجبئی انہ قال اسم المراۃ التی تزوجہا موسی صفورہ و اسم اختہا لیا و کذ روی من طریق ابن اسحاق الا انہ قال اسم اختہا شرقا و قیل لیا و قال غیرہ ان اسمہما صفورا و عبرا و انہما کانتا تواما و روی من طریق علی بن ابی طلحۃ عن ابن عباس فی قولہ ان خیر من استاجرت القوی الامین قال قوی فیما ولی امین فیما استودع و روی من طریق ابن عباس و مجاہد فی آخرین ان اباہا سالہا عمارات من قوتہ و امانتہ فذکرت قوتہ فی حال السقی و امانتہ فی غض طرفہ عنہما و قولہ لھا امشی خلفی و دلینی علی الطریق و ہذا اخرجہ البیہقی باسناد صحیح عن عمر بن الخطاب و زاد فیہ فزوجہ واقام موسی معہ یکفیہ او یعمل لہ فی رعایۃ غنمہ ( فتح الباری )
دختر حضرت شعیب علیہ السلام کی تفصیلات کے ذیل میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس عورت سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شادی کی تھی اس کا نام صفورہ تھا اور اس کی دوسری بہن کا نام ”لیا“ تھا۔ بعض نے دوسری بہن کا نام شرقا بتلایا ہے۔ اور بعض نے ”الیا“ اور بعض نے کوئی اور نام بتلایا ہے اور بعض کی تحقیق یہ کہ پہلی کا نام صفورہ اور دوسری بہن کا نام عبرا تھا۔ اور یہ دونوں جوڑ کے ساتھ بیک وقت پیدا ہوئی تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آیت شریفہ ان خیر من استاجرت کی تفسیر یوں فرمائی ہے کہ قوی ( طاقتور ) ان امور کے لیے جن کا ان کو ذمہ دار والی بنایا جائے۔ اور امین ( امانت دار ) ان چیزوں کے لیے جو اس کو سونپی جائیں۔ اور ابن عبا س رضی اللہ عنہما اور مجاہد سے یہ بھی منقول ہے کہ اس کے والد نے اپنی لڑکی سے پوچھا کہ تم نے اس کی قوت اور امانت کے متعلق کیا دیکھا۔ تو انہوں نے بکریوں کو پانی پلانے کے سلسلہ میں ان کی قوت کا بیان کیا۔ اور امانت کا ان کی آنکھوں کو نیچا کرنے کے سلسلہ میں جب کہ وہ آگے چل رہی تھی اور قدم کا بعض حصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نظر آگیا تھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ کہ میرے پیچھے پیچھے چلو اور راستہ سے مجھ کومطلع کرتی چلو۔ پس حضرت شعیب علیہ السلام نے اس لڑکی کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے نکاح کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کواپنے ساتھ اپنی خدمت کے لیے نیز بکریاں چرانے کے لیے ٹھہرایا۔ جیسا کہ آٹھ سال کے لیے طے کیا گیا تھا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دو سال اوراپنی طرف سے بڑھا دیئے۔ اس طرح پورے دس سال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت شعیب علیہ السلام کی خدمت میں مقیم رہنے کا شرف حاصل ہوا۔
حدیث عتبہ بن منذر میں مروی ہے قال کنا عند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال ان موسی اجر نفسہ ثمان سنین او عشرا علی عفۃ فرجہ و طعام بطنہ اخرجہ ابن ماجہ وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تھے آپ نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آٹھ سال یا دس سال کے لیے اپنے نفس کو حضرت شعیب علیہ السلام کی ملازت کے سپرد کر دیا تاکہ آپ شکم پری کے ساتھ ازداوجی زندگی میں عفت کی زندگی گزار سکیں۔
المجموع شرح المہذب للاستاذالمحقق محمد نجیب المطیعی میں کتاب الاجارہ کے ذیل میں لکھا ہے یجوز عقد الاجارۃ علی المنافع المباحۃ و الدلیل علیہ قولہ تعالیٰ فان ارضعن لکم فاتوہن اجورہن ( الجزءالرابع عشر ص255 ) یعنی منافع مباح کے اوپر مزدوری کرنا جائز ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے کہ اگر وہ مطلقہ عورتیں تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو ان کو ان کی مزدوری ادا کردو۔ معلوم ہوا کہ مزدروی کرنے کرانے کا ثبوت کتاب اللہ و سنت رسول اللہ سے ہے اور یہ کوئی ایسا کام نہیں ہے کہ اسے شرافت کے خلاف سمجھا جائے جیسا کہ بعض غلط قسم کے لوگوں کا تصور ہوتا ہے اور آج تو مزدوروں کی دنیا ہے، ہر طرف مزدروں کی تنظیم ہیں۔ مزدور آج کے دور میں دنیا پر حکومت کر رے ہیں جیسا کہ مشاہدہ ہے۔