‌صحيح البخاري - حدیث 2259

كِتَابُ الشُّفْعَةِ بَابٌ: أَيُّ الجِوَارِ أَقْرَبُ؟ صحيح حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ح و حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا شَبَابَةُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا أَبُو عِمْرَانَ قَالَ سَمِعْتُ طَلْحَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ لِي جَارَيْنِ فَإِلَى أَيِّهِمَا أُهْدِي قَالَ إِلَى أَقْرَبِهِمَا مِنْكِ بَابًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2259

کتاب: شفہ کے بیان میں باب : کون پڑوسی زیادہ حق دار ہے ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ( دوسری سند ) اور مجھ سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے شبابہ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابوعمران نے بیان کیا، کہا کہ میں نے طلحہ بن عبداللہ سے سنا، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے دو پڑوسی ہیں، میں ان دونوں میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجو؟ آپ نے فرمایا کہ جس کا دروازہ تجھ سے زیادہ قریب ہو۔
تشریح : قسطلانی نے کہا کہ اس سے شفعہ کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ حافظ نے کہا کہ ابورافع کی حدیث ہمسایہ کے لیے حق شفعہ ثابت کرتی ہے اب اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ اگر کئی ہمسائے ہوں تو وہ ہمسایہ حق شفعہ میں مقدم سمجھا جائے گا جس کا دروازہ جائیداد مبیعہ سے زیادہ نزدیک ہو۔ قسطلانی نے کہا کہ اس سے شفعہ کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔ حافظ نے کہا کہ ابورافع کی حدیث ہمسایہ کے لیے حق شفعہ ثابت کرتی ہے اب اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ اگر کئی ہمسائے ہوں تو وہ ہمسایہ حق شفعہ میں مقدم سمجھا جائے گا جس کا دروازہ جائیداد مبیعہ سے زیادہ نزدیک ہو۔