كِتَابُ السَّلَمِ بَابُ السَّلَمِ إِلَى مَنْ لَيْسَ عِنْدَهُ أَصْلٌ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ أَخْبَرَنَا عَمْرٌو قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيَّ قَالَ سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ السَّلَمِ فِي النَّخْلِ قَالَ نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ حَتَّى يُوكَلَ مِنْهُ وَحَتَّى يُوزَنَ فَقَالَ الرَّجُلُ وَأَيُّ شَيْءٍ يُوزَنُ قَالَ رَجُلٌ إِلَى جَانِبِهِ حَتَّى يُحْرَزَ وَقَالَ مُعَاذٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرٍو قَالَ أَبُو الْبَخْتَرِيِّ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ
کتاب: بیع سلم کے بیان میں
باب : اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال ہی موجود نہ ہو
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالبختری طائی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ درخت پر پھل کو بیچنے سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جاسکے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا چیز وزن کی جائے گی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اندازہ کرنے کے قابل ہو جائے اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے کہ ابوالبختری نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ پھر یہی حدیث بیان کیا۔
تشریح :
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس کی پختگی نہ کھل جائے اس وقت تک سلم جائز نہیں کیوں کہ یہ سلم خاص درختوں کے پھل پر ہوئی۔ اگر مطلق کھجور میں کوئی سلم کرے تو وہ جائز ہے۔ گو درخت پر پھل نکلے بھی نہ ہوں۔ یا مسلم الیہ کے پاس درخت بھی نہ ہوں۔ اب بعض نے کہا کہ یہ حدیث درحقیقت بعد والے باب سے متعلق ہے۔ بعض نے کہا اسی باب سے متعلق ہے اور مطابقت یوں ہوتی ہے کہ جب معین درختوں میں باوجود درختوں کے سلم جائز نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ درختوں کے وجود سے سلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر درخت نہ ہوں جو مال کی اصل ہیں جب بھی سلم جائز ہوگی۔ باب کا یہی مطلب ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس کی پختگی نہ کھل جائے اس وقت تک سلم جائز نہیں کیوں کہ یہ سلم خاص درختوں کے پھل پر ہوئی۔ اگر مطلق کھجور میں کوئی سلم کرے تو وہ جائز ہے۔ گو درخت پر پھل نکلے بھی نہ ہوں۔ یا مسلم الیہ کے پاس درخت بھی نہ ہوں۔ اب بعض نے کہا کہ یہ حدیث درحقیقت بعد والے باب سے متعلق ہے۔ بعض نے کہا اسی باب سے متعلق ہے اور مطابقت یوں ہوتی ہے کہ جب معین درختوں میں باوجود درختوں کے سلم جائز نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ درختوں کے وجود سے سلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر درخت نہ ہوں جو مال کی اصل ہیں جب بھی سلم جائز ہوگی۔ باب کا یہی مطلب ہے۔