‌صحيح البخاري - حدیث 2242

كِتَابُ السَّلَمِ بَابُ السَّلَمِ فِي وَزْنٍ مَعْلُومٍ صحيح حدثنا أبو الوليد، حدثنا شعبة، عن ابن أبي المجالد،‏.‏ وحدثنا يحيى، حدثنا وكيع، عن شعبة، عن محمد بن أبي المجالد، حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، قال أخبرني محمد،، أو عبد الله بن أبي المجالد قال اختلف عبد الله بن شداد بن الهاد وأبو بردة في السلف، فبعثوني إلى ابن أبي أوفى ـ رضى الله عنه ـ فسألته فقال إنا كنا نسلف على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر، في الحنطة، والشعير والزبيب، والتمر‏. وسألت ابن أبزى، فقال مثل ذلك

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2242

کتاب: بیع سلم کے بیان میں باب : بیع سلم مقررہ وزن کے ساتھ جائز ہے ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی مجالد نے ( تیسری سند ) اور ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے۔ ( دوسری سند ) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے محمد اور عبداللہ بن ابی مجالد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن شداد بن الہاد اور ابوبردہ میں بیع سلم کے متعلق باہم اختلاف ہوا۔ تو ان حضرات نے مجھے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کے خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں گیہوں، جو، منقی اور کھجور کی بیع سلمکرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوںنے بھی یہی جواب دیا۔
تشریح : حافظ فرماتے ہیں : اجمعوا علی انہ ان کان فی السلم ما یکال او یوزن فلا بد فیہ من ذکر الکیل المعلوم و الوزن المعلوم فان کان فیما لا یکال و لا یوزن فلا بد فیہ من عدد معلوم یعنی اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔ حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا۔ فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ سند میں حضرت وکیع بن جراح کا نام آیا۔ اور ان سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ کوفہ کے باشندے ہیں۔ بقول بعض ان کی اصل نیشاپور کے قریہ سے ہے۔ انہوں نے ہشام بن عروہ اور اوزاعی اور ثوری وغیرہ اساتذہ حدیث سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان کے تلامذہ میں اکابر حضرات مثلاً عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی نظر آتے یں۔ بغداد میں رونق افروز ہو کر درس حدیث کا حلقہ قائم فرمایا۔ فن حدیث میں ان کا قول قابل اعتماد تسلیم کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ حدیبہ اور خیبر میں اور اس کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ اور ہمیشہ مدینہ میں قیام فرمایا۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حادثہ سامنے آگیا۔ اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔ 87ھ میں کوفہ میں ہی انتقال فرمایا۔ کوفہ میں انتقال کرنے والے یہ سب سے آخری صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان سے امام شعبی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ امام شعبی عامر بن شرحبیل کوفی مشہور ذی علم اکابر میں سے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔ بہت سے صحابہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا۔ حفظ حدیث کا یہ ملکہ خداداد تھا کہ کبھی کوئی حرف کاغذ پر نوٹ نہیں فرمایا۔ جو بھی حدیث سنی اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا۔ امام زہری کہا کرتے تھے کہ دور حاضر ہ میں حقیقی علماءتو چار ہی دیکھے گئے ہیں۔ یعنی ابن مسیب مدینہ میں، شعبی کوفہ میں، حسن بصرہ میں اور محکول شام میں۔ بعمر82 سال104ھ میں انتقال فرمایا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ آمین حافظ فرماتے ہیں : اجمعوا علی انہ ان کان فی السلم ما یکال او یوزن فلا بد فیہ من ذکر الکیل المعلوم و الوزن المعلوم فان کان فیما لا یکال و لا یوزن فلا بد فیہ من عدد معلوم یعنی اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔ حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا۔ فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ سند میں حضرت وکیع بن جراح کا نام آیا۔ اور ان سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔ کوفہ کے باشندے ہیں۔ بقول بعض ان کی اصل نیشاپور کے قریہ سے ہے۔ انہوں نے ہشام بن عروہ اور اوزاعی اور ثوری وغیرہ اساتذہ حدیث سے حدیث کی سماعت کی ہے۔ ان کے تلامذہ میں اکابر حضرات مثلاً عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی نظر آتے یں۔ بغداد میں رونق افروز ہو کر درس حدیث کا حلقہ قائم فرمایا۔ فن حدیث میں ان کا قول قابل اعتماد تسلیم کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ حدیبہ اور خیبر میں اور اس کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ اور ہمیشہ مدینہ میں قیام فرمایا۔ یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا حادثہ سامنے آگیا۔ اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔ 87ھ میں کوفہ میں ہی انتقال فرمایا۔ کوفہ میں انتقال کرنے والے یہ سب سے آخری صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ ان سے امام شعبی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔ امام شعبی عامر بن شرحبیل کوفی مشہور ذی علم اکابر میں سے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔ بہت سے صحابہ سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا۔ حفظ حدیث کا یہ ملکہ خداداد تھا کہ کبھی کوئی حرف کاغذ پر نوٹ نہیں فرمایا۔ جو بھی حدیث سنی اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا۔ امام زہری کہا کرتے تھے کہ دور حاضر ہ میں حقیقی علماءتو چار ہی دیکھے گئے ہیں۔ یعنی ابن مسیب مدینہ میں، شعبی کوفہ میں، حسن بصرہ میں اور محکول شام میں۔ بعمر82 سال104ھ میں انتقال فرمایا۔ رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ آمین