‌صحيح البخاري - حدیث 2236

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ بَيْعِ المَيْتَةِ وَالأَصْنَامِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي رَبَاحٍ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عَامَ الْفَتْحِ وَهُوَ بِمَكَّةَ إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ حَرَّمَ بَيْعَ الْخَمْرِ وَالْمَيْتَةِ وَالْخِنْزِيرِ وَالْأَصْنَامِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرَأَيْتَ شُحُومَ الْمَيْتَةِ فَإِنَّهَا يُطْلَى بِهَا السُّفُنُ وَيُدْهَنُ بِهَا الْجُلُودُ وَيَسْتَصْبِحُ بِهَا النَّاسُ فَقَالَ لَا هُوَ حَرَامٌ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ إِنَّ اللَّهَ لَمَّا حَرَّمَ شُحُومَهَا جَمَلُوهُ ثُمَّ بَاعُوهُ فَأَكَلُوا ثَمَنَهُ قَالَ أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ حَدَّثَنَا يَزِيدُ كَتَبَ إِلَيَّ عَطَاءٌ سَمِعْتُ جَابِرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2236

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : مردار اور بتوں کا بیچنا ہم سے قتیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، انہو ںنے کہا کہ ہم سے یزید بن ابی حبیب نے بیان کیا، ان سے عطاءبن ابی رباح نے بیان کیا، اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، فتح مکہ کے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آپ کا قیام ابھی مکہ ہی میں تھا کہ اللہ اور اس کے رسول نے شراب، مردار، سور اور بتوں کا بیچنا حرام قرار دے دیا ہے۔ اس پر پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! مردار کی چربی کے متعلق کیا حکم ہے؟ اسے ہم کشتیوں پر ملتے ہیں۔ کھالوں پر اس سے تیل کا کام لیتے ہیں اور لوگ اس سے اپنے چراغ بھی جلاتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ حرام ہے۔ اسی موقع پر آپ نے فرمایا کہ اللہ یہودیوں کو برباد کرے اللہ تعالیٰ نے جب چربی ان پر حرام کی تو ان لوگوں نے پگھلا کر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی۔ ابوعاصم نے کہا کہ ہم سے عبدالحمید نے بیان کیا، ان سے یزید نے بیان کیا، انہیں عطاءنے لکھا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہو ںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
تشریح : مکہ8ھ میں فتح ہوا ہے۔ مردار کی چربی، اکثر علماءنے اس کے متعلق یہ بتلایا ہے کہ اس کی بیچنا حرام ہے اور اس سے نفع اٹھانا درست ہے۔ مثلاً کشتیوں پر لگانا اور چراغ جلانا۔ بعض نے کہا کوئی نفع اٹھانا جائز نہیں سوا اس کے جس کی صراحت حدیث میں آگئی ہے۔ یعنی چمڑا جب اس کی دباغت کر لی جائے، اگر کوئی پاک چیز ناپاک ہو جائے جیسے لکڑی یا کپڑا تو اس کی بیع جمہور علماءکے نزدیک جائز ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مرحوم فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ان اللہ و رسولہ حرم بیع الخمر و المیتۃ و الخنزیر و الاصنام یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے اور نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان اللہ اذا حرم شیئا حرم ثمنہ بے شک خداوند تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دے دیا تو اس کی قیمت کو بھی حرام کیا ہے، یعنی جب ایک چیز سے نفع اٹھانے کا طریق مقرر ہے مثلاً شراب پینے کے لیے ہے۔ اور بت صرف پرستش کے لیے۔ پس اللہ نے ان کو حرام کر دیا۔ اس لیے اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ ان کی بیع بھی حرام کی جائے۔ اور نیز آپ نے فرمایا مہر البغی خبیث یعنی زانیہ کی اجرت خبیث ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہن کو اجرت دینے سے منع فرمایا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغنیہ کے کسب سے نہی فرمائی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جس مال کے حاصل کرنے میں گناہ کی آمیزش ہوتی ہے، اس مال سے نفع حاصل کرنا بدو وجہ حرام ہے ایک تو یہ کہ اس مال کے حرام کرنے اور اس سے انتفاع نہ حاصل کرنے میں معصیت سے باز رکھنا ہے اور اس قسم کے معاملہ کے دستور جاری کرنے میں فساد کا جاری کرنا اور لوگوں کو اس گناہ پر آمادہ کرنا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی دانست میں اور ان کی سمجھ میں ثمن مبیع سے حیلہ پیدا ہوتا ہے اور اس عمل کی خباثت ان کے علوم میں اس ثمن اور اس اجرت کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور لوگو ںکے نفوس میں بھی اس کا اثر ہوتاہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے باب میں اس کے نچوڑنے والے اور نچڑوانے والے اور پینے والے اور لے جانے والے اور جس کے پاس لے جارہا ہے ان سب پر لعنت فرمائی کیوں کہ معصیت کی اعانت اور اس کا پھیلانا اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا بھی معصیت اور زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں، ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے، انصار میں سے ہیں۔ قبیلہ سلم کے رہنے والے ہیں۔ ان کاشمار ان مشہور صحابہ میں ہوتا ہے جنہو ںنے حدیث کی روایت کثرت سے کی ہے۔ بدر اور جملہ غزوات میں جن کی تعداد اٹھارہ ہے۔ یہ شریک ہوئے۔ شام اور مصر میں تبلیغی و تعلیمی سفر کئے۔ آخر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ ان سے جماعت کثیرہ نے احادیث کو نقل کیا ہے۔ 94سال کی عمر میں 74ھ میں مدینۃ المنورہ میں وفات پائی۔ جب کہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کا زمانہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں وفات پانے والے یہی بزرگ ہیں۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ آمین ماہ رمضان المبارک 8ھ مطابق 630ءمیں مکہ شریف فتح ہوا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ اس طرح کتب مقدسہ کی وہ پیش گوئی پوری ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے : ”خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چمکا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے دائیں ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔ وہ قوم کے ساتھ کمال اخلاص سے محبت رکھتا ہے۔ اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وے تیرے قدموں کے نزدیک ہیں اور تیری تعلیم کو مانیں گے۔ “ ( تورات استثناء2 تا 33/4 ) اس تاریخی عظیم فتح کے موقعہ پر آپ نے ایک خطاب عام فرمایا۔ جس میں شراب، مردار، سور اور بتوں کی تجارت کے متعلق بھی یہ احکامات صادر فرمائے جو یہاں بیان ہوئے ہیں۔ ( نوٹ ) تورات مطبوعہ کلکتہ 1842 سامنے رکھی ہوئی ہے اسی سے یہ پیش گوئی نقل کر رہا ہوں ( راز ) مکہ8ھ میں فتح ہوا ہے۔ مردار کی چربی، اکثر علماءنے اس کے متعلق یہ بتلایا ہے کہ اس کی بیچنا حرام ہے اور اس سے نفع اٹھانا درست ہے۔ مثلاً کشتیوں پر لگانا اور چراغ جلانا۔ بعض نے کہا کوئی نفع اٹھانا جائز نہیں سوا اس کے جس کی صراحت حدیث میں آگئی ہے۔ یعنی چمڑا جب اس کی دباغت کر لی جائے، اگر کوئی پاک چیز ناپاک ہو جائے جیسے لکڑی یا کپڑا تو اس کی بیع جمہور علماءکے نزدیک جائز ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی مرحوم فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ان اللہ و رسولہ حرم بیع الخمر و المیتۃ و الخنزیر و الاصنام یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب، مردار، سور اور بتوں کی تجارت کو حرام قرار دیا ہے اور نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان اللہ اذا حرم شیئا حرم ثمنہ بے شک خداوند تعالیٰ نے جس چیز کو حرام قرار دے دیا تو اس کی قیمت کو بھی حرام کیا ہے، یعنی جب ایک چیز سے نفع اٹھانے کا طریق مقرر ہے مثلاً شراب پینے کے لیے ہے۔ اور بت صرف پرستش کے لیے۔ پس اللہ نے ان کو حرام کر دیا۔ اس لیے اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ ان کی بیع بھی حرام کی جائے۔ اور نیز آپ نے فرمایا مہر البغی خبیث یعنی زانیہ کی اجرت خبیث ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کاہن کو اجرت دینے سے منع فرمایا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مغنیہ کے کسب سے نہی فرمائی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ جس مال کے حاصل کرنے میں گناہ کی آمیزش ہوتی ہے، اس مال سے نفع حاصل کرنا بدو وجہ حرام ہے ایک تو یہ کہ اس مال کے حرام کرنے اور اس سے انتفاع نہ حاصل کرنے میں معصیت سے باز رکھنا ہے اور اس قسم کے معاملہ کے دستور جاری کرنے میں فساد کا جاری کرنا اور لوگوں کو اس گناہ پر آمادہ کرنا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی دانست میں اور ان کی سمجھ میں ثمن مبیع سے حیلہ پیدا ہوتا ہے اور اس عمل کی خباثت ان کے علوم میں اس ثمن اور اس اجرت کے اندر سرایت کر جاتی ہے اور لوگو ںکے نفوس میں بھی اس کا اثر ہوتاہے۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے باب میں اس کے نچوڑنے والے اور نچڑوانے والے اور پینے والے اور لے جانے والے اور جس کے پاس لے جارہا ہے ان سب پر لعنت فرمائی کیوں کہ معصیت کی اعانت اور اس کا پھیلانا اور لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرنا بھی معصیت اور زمین میں فساد برپا کرنا ہے۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں، ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے، انصار میں سے ہیں۔ قبیلہ سلم کے رہنے والے ہیں۔ ان کاشمار ان مشہور صحابہ میں ہوتا ہے جنہو ںنے حدیث کی روایت کثرت سے کی ہے۔ بدر اور جملہ غزوات میں جن کی تعداد اٹھارہ ہے۔ یہ شریک ہوئے۔ شام اور مصر میں تبلیغی و تعلیمی سفر کئے۔ آخر عمر میں بینائی جاتی رہی تھی۔ ان سے جماعت کثیرہ نے احادیث کو نقل کیا ہے۔ 94سال کی عمر میں 74ھ میں مدینۃ المنورہ میں وفات پائی۔ جب کہ عبدالملک بن مروان کی حکومت کا زمانہ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سب سے آخر میں وفات پانے والے یہی بزرگ ہیں۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ۔ آمین ماہ رمضان المبارک 8ھ مطابق 630ءمیں مکہ شریف فتح ہوا۔ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس ہزار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تھے۔ اس طرح کتب مقدسہ کی وہ پیش گوئی پوری ہوئی جس کا ترجمہ یہ ہے : ”خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے طلوع ہوا اور فاران کے پہاڑ سے ان پر چمکا۔ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ اور اس کے دائیں ہاتھ میں ایک آتشی شریعت ان کے لیے تھی۔ وہ قوم کے ساتھ کمال اخلاص سے محبت رکھتا ہے۔ اس کے سارے مقدس تیرے ہاتھ میں ہیں اور وے تیرے قدموں کے نزدیک ہیں اور تیری تعلیم کو مانیں گے۔ “ ( تورات استثناء2 تا 33/4 ) اس تاریخی عظیم فتح کے موقعہ پر آپ نے ایک خطاب عام فرمایا۔ جس میں شراب، مردار، سور اور بتوں کی تجارت کے متعلق بھی یہ احکامات صادر فرمائے جو یہاں بیان ہوئے ہیں۔ ( نوٹ ) تورات مطبوعہ کلکتہ 1842 سامنے رکھی ہوئی ہے اسی سے یہ پیش گوئی نقل کر رہا ہوں ( راز )