كِتَابُ البُيُوعِ بَابٌ: هَلْ يُسَافِرُ بِالْجَارِيَةِ قَبْلَ أَنْ يَسْتَبْرِئَهَا صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ الْغَفَّارِ بْنُ دَاوُدَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْبَرَ فَلَمَّا فَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْحِصْنَ ذُكِرَ لَهُ جَمَالُ صَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيِّ بْنِ أَخْطَبَ وَقَدْ قُتِلَ زَوْجُهَا وَكَانَتْ عَرُوسًا فَاصْطَفَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِنَفْسِهِ فَخَرَجَ بِهَا حَتَّى بَلَغْنَا سَدَّ الرَّوْحَاءِ حَلَّتْ فَبَنَى بِهَا ثُمَّ صَنَعَ حَيْسًا فِي نِطَعٍ صَغِيرٍ ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آذِنْ مَنْ حَوْلَكَ فَكَانَتْ تِلْكَ وَلِيمَةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَفِيَّةَ ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ قَالَ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَوِّي لَهَا وَرَاءَهُ بِعَبَاءَةٍ ثُمَّ يَجْلِسُ عِنْدَ بَعِيرِهِ فَيَضَعُ رُكْبَتَهُ فَتَضَعُ صَفِيَّةُ رِجْلَهَا عَلَى رُكْبَتِهِ حَتَّى تَرْكَبَ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
باب : اگر لونڈی خریدے تو استبراء رحم سے پہلے اس کو سفر میں لے جا سکتا ہے یا نہیں؟
ہم سے عبدالغفار بن داؤد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے بیان کیا، ان سے عمرو بن ابی عمرو نے او ران سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر تشریف لائے اور اللہ تعالیٰ نے قلعہ فتح کرا دیا تو آپ کے سامنے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے حسن کی تعریف کی گئی۔ ان کا شوہر قتل ہو گیا تھا۔ وہ خود ابھی دلہن تھیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے لیے پسند کرلیا۔ پھر روانگی ہوئی۔ جب آپ سد الروحاءپہنچے تو پڑاؤ ہوا۔ اور آپ نے وہیں ان کے ساتھ خلوت کی۔ پھر ایک چھوٹے دستر خوان پر حیس تیار کرکے رکھوایا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ اپنے قریب کے لوگوں کو ولیمہ کی خبرکر دو۔ صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کا یہی ولیمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ پھر جب ہم مدینہ کی طرف چلے تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباءسے صفیہ رضی اللہ عنہا کے لیے پردہ کرایا۔ اور اپنے اونٹ کو پاس بٹھا کر اپنا ٹخنہ بچھا دیا۔ صفیہ رضی اللہ عنہا اپنا پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹخنے پر رکھ کر سوار ہو گئیں۔
تشریح :
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں۔ یہ کنانہ رئیس خیبر کی بیوی تھیں اور یہ کنانہ وہی یہودی ہے جس نے بہت سے خزانے زیر زمین دفن کر رکھے تھے۔ اور فتح خیبر کے موقعہ پر ان سب کو پوشیدہ رکھنا چاہا تھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الٰہی سے اطلاع مل گئی۔ اور کنانہ کو خود اسی کے قوم کے اصرار پر قتل کر دیا گیا۔ کیوں کہ اکثر غربائے یہود اس سرمایہ دار کی حرکتوں سے نالاں تھے۔ اور آج بمشکل ان کو یہ مو قع ملا تھا۔ صفیہ رضی اللہ عنہا نے پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں ہے۔ جب انہوں نے یہ خواب اپنے شوہر کنانہ سے بیان کیا تو اس کی تعبیر کنانہ نے یہ سمجھ کر یہ نبی موعود علیہ السلام کی بیوی بنے گی ان کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ مارا تھا۔ خیبر فتح ہوا تو یہ بھی قیدیوں میں تھی اور حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھی۔
بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرافت نسبی معلوم ہوئی کہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام کے خاندان سے ہیں تو آپ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ان کے عوض سات غلام دے کر ان سے واپس لے کر آزاد فرما دیا۔ اور خود انہوں نے اپنے پرانے خواب کی بناءپر آپ سے شرف زوجیت کا سوال کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم محترم میں ان کو داخل فرما لیا۔ اور ان کا مہر ان کی آزادی کوقرار دے دیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بہت ہی وفادار اور علم دوست ثابت ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی شرافت کے پیش نظر ان کو عزت خاص عطا فرمائی۔ اس سفر ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عباءمبارک سے ان کا پردہ کرایا اور اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا ٹخنہ بچھا دیا۔ جس پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنا پاؤں رکھا اور اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ 50ھ میں انہوں نے وفات پائی اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرماتے ہوئے کئی جگہ اسے مختصر اور مطول نقل فرمایا ہے۔ یہاں آپ کے پیش نظر وہ جملہ مسائل ہیں جن کا ذکر آپ نے ترجمۃ الباب میں فرمایا ہے اور وہ سب اس حدیث سے بخوبی ثابت ہوتے ہیں کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا لونڈی کی حیثیت میں آئی تھیں۔ آپ نے ان کو آزاد فرمایا اور سفر میں اپنے ہمراہ رکھا۔ اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔
حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا حیی بن اخطب کی بیٹی ہیں۔ یہ کنانہ رئیس خیبر کی بیوی تھیں اور یہ کنانہ وہی یہودی ہے جس نے بہت سے خزانے زیر زمین دفن کر رکھے تھے۔ اور فتح خیبر کے موقعہ پر ان سب کو پوشیدہ رکھنا چاہا تھا۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی الٰہی سے اطلاع مل گئی۔ اور کنانہ کو خود اسی کے قوم کے اصرار پر قتل کر دیا گیا۔ کیوں کہ اکثر غربائے یہود اس سرمایہ دار کی حرکتوں سے نالاں تھے۔ اور آج بمشکل ان کو یہ مو قع ملا تھا۔ صفیہ رضی اللہ عنہا نے پہلے ایک خواب دیکھا تھا کہ چاند میری گود میں ہے۔ جب انہوں نے یہ خواب اپنے شوہر کنانہ سے بیان کیا تو اس کی تعبیر کنانہ نے یہ سمجھ کر یہ نبی موعود علیہ السلام کی بیوی بنے گی ان کے منہ پر ایک زور کا طمانچہ مارا تھا۔ خیبر فتح ہوا تو یہ بھی قیدیوں میں تھی اور حضرت دحیہ بن خلیفہ کلبی کے حصہ غنیمت میں لگا دی گئی تھی۔
بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی شرافت نسبی معلوم ہوئی کہ یہ حضرت ہارون علیہ السلام کے خاندان سے ہیں تو آپ نے حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کو ان کے عوض سات غلام دے کر ان سے واپس لے کر آزاد فرما دیا۔ اور خود انہوں نے اپنے پرانے خواب کی بناءپر آپ سے شرف زوجیت کا سوال کیا، تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے حرم محترم میں ان کو داخل فرما لیا۔ اور ان کا مہر ان کی آزادی کوقرار دے دیا۔ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا بہت ہی وفادار اور علم دوست ثابت ہوئیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کی شرافت کے پیش نظر ان کو عزت خاص عطا فرمائی۔ اس سفر ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عباءمبارک سے ان کا پردہ کرایا اور اپنے اونٹ کے پاس بیٹھ کر اپنا ٹخنہ بچھا دیا۔ جس پر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے اپنا پاؤں رکھا اور اونٹ پر سوار ہو گئیں۔ 50ھ میں انہوں نے وفات پائی اور جنت البقیع میں سپرد خاک کی گئیں۔
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کا استخراج فرماتے ہوئے کئی جگہ اسے مختصر اور مطول نقل فرمایا ہے۔ یہاں آپ کے پیش نظر وہ جملہ مسائل ہیں جن کا ذکر آپ نے ترجمۃ الباب میں فرمایا ہے اور وہ سب اس حدیث سے بخوبی ثابت ہوتے ہیں کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا لونڈی کی حیثیت میں آئی تھیں۔ آپ نے ان کو آزاد فرمایا اور سفر میں اپنے ہمراہ رکھا۔ اسی سے باب کا مقصد ثابت ہوا۔