‌صحيح البخاري - حدیث 2232

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ بَيْعِ المُدَبَّرِ صحيح حدثني زهير بن حرب، حدثنا يعقوب، حدثنا أبي، عن صالح، قال حدث ابن شهاب، أن عبيد الله، أخبره أن زيد بن خالد وأبا هريرة رضى الله عنهما أخبراه أنهما، سمعا رسول الله صلى الله عليه وسلم يسأل عن الأمة تزني ولم تحصن قال ‏"‏اجلدوها، ثم إن زنت فاجلدوها، ثم بيعوها بعد الثالثة أو الرابعة‏"

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2232

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : مدبر کا بیچنا کیسا ہے؟ مجھ سے زہیر بن حرب نے بیان کیا، انہو ںنے کہا کہ ہم سے یعقوب نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوںنے کہا کہ ہم سے صالح نے بیان کیا کہ ابن شہاب نے بیان کیا، انہیں عبید اللہ نے خبر دی، انہیں زید بن خالد اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ ان دونوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ سے غیر شادی شدہ باندی کے متعلق جو زنا کرلے سوال کیا گیا، آپ نے فرمایا کہ اسے کوڑے لگاؤ، پھر اگروہ زنا کرلے تو اسے کوڑے لگاؤ۔ اور پھر اسے بیچ دو۔ ( آخری جملہ آپ نے ) تیسری یا چوتھی مرتبہ کے بعد ( فرمایا تھا )۔
تشریح : اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔ حافظ نے کہا ا س حدیث سے یہ نکلا کہ لونڈی جب زنا کرے تو ا س کو بیچ ڈالیں اور یہ عام ہے اس لونڈی کو بھی شامل ہے جو مدبرہ ہے۔ تو مدبرہ کی بیع کا جواز نکلا، عینی نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ حدیث میں جواز بیع مکرر سہ کرر زنا کرانے پر موقوف رکھا گیا ہے اور ان لوگوں کے نزدیک تو مدبرہ کی بیع ہر حال میں درست ہے خواہ وہ زنا کرائے یا نہ کرائے، تو اس سے استدلال صحیح نہیں ہوسکتا۔ میں کہتا ہوں کہ عینی کا اعتراض فاسد ہے۔ اس لیے کہ مدبرہ لونڈی اگر مکرر سہ کرر زنا کرائے تو اس کے بیچنے کا جواز اس حدیث سے نکلا اور جو لوگ مدبر کی بیع کو جائز نہیں سمجھتے وہ زنا کرنے کی صورت میں بھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ پس یہ حدیث ان کے قول کے خلاف ہوئی اور موافق ہوئی ان کے جو مدبر کی بیع کے جواز کے قائل ہیں۔ اور گو بیع کا حکم اس حدیث میں زنا کے مکرر سہ کرر ہونے پر دیا گیا ہے، مگر قرینہ دلالت کرتا ہے کہ بیع اس پر موقوف نہیں ہے۔ اس لیے کہ جو لونڈی مطلق زنا نہ کرائے یا ایک ہی بار کرائے اس کا بھی بیچنا درست ہے۔ اب عینی کا یہ کہنا کہ یہ دلالت بعبارۃ النص ہے یا اشارۃ النص یا دلالۃ النص ؟ اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ یہ دلالۃ النص ہے کیوں کہ حدیث میں مطلق لونڈی کا ذکر ہے اور وہ مدبرہ کو شامل ہے۔ ( وحیدی ) اس حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے مشکل ہے۔ حافظ نے کہا ا س حدیث سے یہ نکلا کہ لونڈی جب زنا کرے تو ا س کو بیچ ڈالیں اور یہ عام ہے اس لونڈی کو بھی شامل ہے جو مدبرہ ہے۔ تو مدبرہ کی بیع کا جواز نکلا، عینی نے اس پر یہ اعتراض کیا کہ حدیث میں جواز بیع مکرر سہ کرر زنا کرانے پر موقوف رکھا گیا ہے اور ان لوگوں کے نزدیک تو مدبرہ کی بیع ہر حال میں درست ہے خواہ وہ زنا کرائے یا نہ کرائے، تو اس سے استدلال صحیح نہیں ہوسکتا۔ میں کہتا ہوں کہ عینی کا اعتراض فاسد ہے۔ اس لیے کہ مدبرہ لونڈی اگر مکرر سہ کرر زنا کرائے تو اس کے بیچنے کا جواز اس حدیث سے نکلا اور جو لوگ مدبر کی بیع کو جائز نہیں سمجھتے وہ زنا کرنے کی صورت میں بھی اس کے جواز کے قائل نہیں ہیں۔ پس یہ حدیث ان کے قول کے خلاف ہوئی اور موافق ہوئی ان کے جو مدبر کی بیع کے جواز کے قائل ہیں۔ اور گو بیع کا حکم اس حدیث میں زنا کے مکرر سہ کرر ہونے پر دیا گیا ہے، مگر قرینہ دلالت کرتا ہے کہ بیع اس پر موقوف نہیں ہے۔ اس لیے کہ جو لونڈی مطلق زنا نہ کرائے یا ایک ہی بار کرائے اس کا بھی بیچنا درست ہے۔ اب عینی کا یہ کہنا کہ یہ دلالت بعبارۃ النص ہے یا اشارۃ النص یا دلالۃ النص ؟ اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ یہ دلالۃ النص ہے کیوں کہ حدیث میں مطلق لونڈی کا ذکر ہے اور وہ مدبرہ کو شامل ہے۔ ( وحیدی )