كِتَابُ البُيُوعِ بَابٌ: لاَ يُذَابُ شَحْمُ المَيْتَةِ وَلاَ يُبَاعُ وَدَكُهُ صحيح حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ قَالَ أَخْبَرَنِي طَاوُسٌ أَنَّهُ سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ بَلَغَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَنَّ فُلَانًا بَاعَ خَمْرًا فَقَالَ قَاتَلَ اللَّهُ فُلَانًا أَلَمْ يَعْلَمْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قَاتَلَ اللَّهُ الْيَهُودَ حُرِّمَتْ عَلَيْهِمْ الشُّحُومُ فَجَمَلُوهَا فَبَاعُوهَا
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
باب : مردار کی چربی گلانا اور اس کا بیچنا جائز نہیں
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے عمرو بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ مجھے طاؤس نے خبر دی، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا، آپ فرماتے تھے کہ عمر رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا کہ فلاں شخص نے شراب فروخت کی ہے، تو آپ نے فرمایا کہ اسے اللہ تعالیٰ تباہ و برباد کردے۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا، اللہ تعالیٰ یہود کو برباد کرے کہ چربی ان پر حرام کی گئی تھی لیکن ان لوگوں نے اسے پگھلا کر فروخت کیا۔
تشریح :
واقعہ یہ ہے کہ عہد فاروقی میں ایک عامل نے ایک ذمی سے جو شراب فروش تھا اور وہ شراب لے کر جارہا تھا، اس شراب پر ٹیکس وصول کر لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس واقعہ کی اطلاع پاکر خفا ہو گئے۔ اور زجر و توبیخ کے لیے آپ نے اسے یہ حدیث سنائی۔ معلوم ہوا کہ شراب سے متعلق ہر قسم کا کاروبار ایک مسلمان کے لیے قطعاً حرام ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ محرمات منصوصہ کو حلال بنانے کے لیے کوئی حیلہ بہانہ تراشنا، یہ فعل یہود ہے، اللہ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔ خدا کرے کہ کتاب الحیل کا مطالعہ فرمانے والے معزز حضرات بھی اس پر غور فرما سکیں۔
واقعہ یہ ہے کہ عہد فاروقی میں ایک عامل نے ایک ذمی سے جو شراب فروش تھا اور وہ شراب لے کر جارہا تھا، اس شراب پر ٹیکس وصول کر لیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس واقعہ کی اطلاع پاکر خفا ہو گئے۔ اور زجر و توبیخ کے لیے آپ نے اسے یہ حدیث سنائی۔ معلوم ہوا کہ شراب سے متعلق ہر قسم کا کاروبار ایک مسلمان کے لیے قطعاً حرام ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ محرمات منصوصہ کو حلال بنانے کے لیے کوئی حیلہ بہانہ تراشنا، یہ فعل یہود ہے، اللہ ہر مسلمان کو اس سے محفوظ رکھے۔ خدا کرے کہ کتاب الحیل کا مطالعہ فرمانے والے معزز حضرات بھی اس پر غور فرما سکیں۔