‌صحيح البخاري - حدیث 2222

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ قَتْلِ الخِنْزِيرِ صحيح حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا اللَّيْثُ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2222

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : سور کا مار ڈالنا، ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے ابن مسیب نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ زمانہ آنے والا ہے جب ابن مریم ( عیسیٰ علیہ السلام ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے والا نہ رہے گا۔
تشریح : اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ سور نجس العین ہے اس کی بیع جائز نہیں ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے قتل کیوں کرتے۔ اور نیست و نابود کیوں کرتے۔ جزیہ موقوف کرنے سے یہ غرض ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے یا مسلمان ہو یا قتل ہو۔ جزیہ قبول نہ کریں گے۔ ا س حدیث سے صاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کے قریب اترنا اور حکومت کرنا اور صلیب توڑنا، جزیہ موقوف کرنا یہ سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اور تعجب ہوتا ہے اس شخص کی عقل پر جو قادیانی مرزا کو مسیح موعود سمجھتا ہے۔ اللہم ثبتنا علی الحق و جنّبنا من الفتن ما ظہر منہا و ما بطن ( وحیدی ) قتل خنزیر سے مراد یہ کہ یامر باعدامہ مبالغۃ فی تحریم اکلہ و فیہ توبیخ عظیم للنصاری الذین یدعون انہم علی طریقۃ عیسی ثم یستحلون اکل الخنزیر و یبالغون فی محبتہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے دور حکومت میں خنزیر کی نسل کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیں گے۔ اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغہ کا بیان ہے اوراس میں ان عیسائیوں کے لیے بڑی ڈانٹ ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں، پھر خنزیر کھانا حلال جانتے ہیں اوراس کی محبت میں مبالغہ کرتے ہیں۔ آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا از سلف تا خلف یہ اعتقاد رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہما السلام آسمان پر زندہ ہیں اور وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہو کر شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اس کے تحت حکومت کریں گے۔ حدیث مذکورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلفیہ بیان فرمایا ہے کہ وہ بالضرور نازل ہوں گے چوں کہ آج کل فرقہ قادیانیہ نے اس بارے میں بہت کچھ دجل پھیلا کر بعض نوجوانوں کے دماغوں کو مسموم کر رکھا ہے۔ لہٰذا چند دلائل کتاب و سنت سے یہاں پیش کئے جاتے ہیں جو اہل ایمان کی تسلی کے لیے کافی ہوں گے۔ قرآن مجید کی آیت شریفہ نص قطعی ہے جس سے حیات مسیح علیہ السللام روز روشن کی طرح ثابت ہے۔ و ان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ و یوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا ( النساء: 159 ) یعنی جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے تو کوئی اہل کتاب یہودی اور عیسائی ایسا باقی نہ رہے گا جو آپ پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوںگے۔ حیات مسیح کے لیے یہ آیت قطعی الدلالۃ ہے کہ وہ قرب قیامت نازل ہوں گے اور جملہ اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔ دوسری آیت یہ ہے و ما قتلوہ و ما صلبوہ و لکن شبہ لہم ( النساء: 157 ) و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزا حکیماً ( النساء: 158-57 ) یعنی یہودیوں نے نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ ان کو پھانسی دی، یقینا ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ رفع سے مراد رفع مع الجسد ہے یعنی جسم مع روح، اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ وہاں زندہ موجود ہیں۔ یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔ تیسری آیت یہ ہے اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطہرک من الذین کفروا و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ ( آل عمران : 55 ) یعنی جس وقت کہا اللہ نے، اے عیسیٰ تحقیق لینے والا ہوں میں تجھ کو اور اٹھانے والا ہوں تجھ کو اپنی طرف اور پاک کرنے والا ہوں تجھ کو ان لوگوں سے کہ کافر ہوئے اور کرنے والا ہوں ان لوگوں کو کہ پیروی کریں گے تیری اوپر ان لوگوں کے کہ کافر ہوئے قیامت کے دن تک۔ یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آگے فائدہ میں لکھتے ہیں کہ یہود کے عالموں نے ا س وقت کے بادشاہ کو بہکایا کہ یہ شخص ملحد ہے تورات کے حکم سے خلاف بتلاتا ہے اس نے لوگ بھیجے کہ ان کو پکڑ لادیں، جب وہ پہنچے حضرت عیسی علیہ السلام کے یار سرک گئے۔ اس شنابی میں حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک صورت ان کی رہ گئی۔ اس کو پکڑ کر لائے پھر سولی پر چڑھایا۔ توفی کے اصل و حقیقی معنی اخذ الشی وافیا کے ہیں جیسا کہ بیضاوی و قسطلانی اور رازی وغیرہم نے لکھا ہے۔ اور موت توفی کے معنی مجازی ہیں نہ حقیقی، اسی واسطے بغیر قیام قرینہ کے موت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اور یہاں کوئی قرینہ موت کا قائم نہیں ہے اس لیے اصل و حقیقی معنی یعنی اخذ الشی و افیا مراد لئے جائیں گے۔ اور انسان کا وافیا لینا یہی ہے کہ مع روح و جسم کے لیا جائے۔ وہو المطلوب۔ لہٰذا یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔ چوتھی آیت و انہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا و اتبعون ہذا صراط مستقیم ( الزخرف : 61 ) اور تحقیق وہ عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے۔ پس مت شک کرو ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری، یہ ہے راہ سیدھی۔ اس آیت کے ذیل میں تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ المراد بذلک نزولہ قبل یوم القیامۃ قال مجاہد و انہ لعلم للساعۃ ای آیۃ للساعۃ خروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیامۃ و ہکذا روی عن ابی ہریرۃ و ابن عباس و ابی العالیۃ و ابی ملک و عکرمۃ و الحسن و قتادۃ و ضحاک و غیرہم و قد تواترت الاحادیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ اخبر بنزول عیسی بن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماما عدلا و حکما مقسطاً ( ابن کثیر ) یعنی یہاں مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔ مجاہد نے کہا کہ وہ قیامت کی نشانی ہوں گے۔ یعنی قیامت کی علامت قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوالعالیہ اور ابومالک اور عکرمہ اور حسن اور قتادہ اور ضحاک وغیرہ نے بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں متواتر احادیث صحیحہ موجود ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب امام عادل اور حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے۔ آیات قرآنی کے علاوہ ان جملہ احادیث صحیحہ کے لیے دفتر کی ضرورت ہے۔ ان ہی میں سے ایک یہ حدیث بخاری بھی ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ پس حیات مسیح کا عقیدہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور یہ کتاب اللہ و احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جو اس کا انکار کرے وہ قرآن و احادیث کا انکاری ہے۔ ایسے منکروں کے ہفوات پر ہرگز توجہ نہ کرنی چاہئے۔ تفصیل کے لیے بہت سی کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں۔ مزید طوالت کی گنجائش نہیں۔ اہل ایمان کے لیے اس قدر بھی کافی ہے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ سور نجس العین ہے اس کی بیع جائز نہیں ورنہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسے قتل کیوں کرتے۔ اور نیست و نابود کیوں کرتے۔ جزیہ موقوف کرنے سے یہ غرض ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے یا مسلمان ہو یا قتل ہو۔ جزیہ قبول نہ کریں گے۔ ا س حدیث سے صاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کے قریب اترنا اور حکومت کرنا اور صلیب توڑنا، جزیہ موقوف کرنا یہ سب باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ اور تعجب ہوتا ہے اس شخص کی عقل پر جو قادیانی مرزا کو مسیح موعود سمجھتا ہے۔ اللہم ثبتنا علی الحق و جنّبنا من الفتن ما ظہر منہا و ما بطن ( وحیدی ) قتل خنزیر سے مراد یہ کہ یامر باعدامہ مبالغۃ فی تحریم اکلہ و فیہ توبیخ عظیم للنصاری الذین یدعون انہم علی طریقۃ عیسی ثم یستحلون اکل الخنزیر و یبالغون فی محبتہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے دور حکومت میں خنزیر کی نسل کو ختم کرنے کا حکم جاری کر دیں گے۔ اس میں اس کے کھانے کی حرمت میں مبالغہ کا بیان ہے اوراس میں ان عیسائیوں کے لیے بڑی ڈانٹ ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار ہونے کے مدعی ہیں، پھر خنزیر کھانا حلال جانتے ہیں اوراس کی محبت میں مبالغہ کرتے ہیں۔ آیات قرآنیہ اور احادیث صحیحہ کی بنا پر جملہ اہل اسلام کا از سلف تا خلف یہ اعتقاد رہا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بن مریم علیہما السلام آسمان پر زندہ ہیں اور وہ قیامت کے قریب دنیا میں نازل ہو کر شریعت محمدیہ کے پیروکار ہوں گے اور اس کے تحت حکومت کریں گے۔ حدیث مذکورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلفیہ بیان فرمایا ہے کہ وہ بالضرور نازل ہوں گے چوں کہ آج کل فرقہ قادیانیہ نے اس بارے میں بہت کچھ دجل پھیلا کر بعض نوجوانوں کے دماغوں کو مسموم کر رکھا ہے۔ لہٰذا چند دلائل کتاب و سنت سے یہاں پیش کئے جاتے ہیں جو اہل ایمان کی تسلی کے لیے کافی ہوں گے۔ قرآن مجید کی آیت شریفہ نص قطعی ہے جس سے حیات مسیح علیہ السللام روز روشن کی طرح ثابت ہے۔ و ان من اہل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ و یوم القیمۃ یکون علیہم شہیدا ( النساء: 159 ) یعنی جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے تو کوئی اہل کتاب یہودی اور عیسائی ایسا باقی نہ رہے گا جو آپ پر ایمان نہ لے آئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوںگے۔ حیات مسیح کے لیے یہ آیت قطعی الدلالۃ ہے کہ وہ قرب قیامت نازل ہوں گے اور جملہ اہل کتاب ان پر ایمان لائیں گے۔ دوسری آیت یہ ہے و ما قتلوہ و ما صلبوہ و لکن شبہ لہم ( النساء: 157 ) و ما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ و کان اللہ عزیزا حکیماً ( النساء: 158-57 ) یعنی یہودیوں نے نہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کیا نہ ان کو پھانسی دی، یقینا ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ اللہ نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ رفع سے مراد رفع مع الجسد ہے یعنی جسم مع روح، اللہ نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ وہاں زندہ موجود ہیں۔ یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔ تیسری آیت یہ ہے اذ قال اللہ یعیسی انی متوفیک و رافعک الی و مطہرک من الذین کفروا و جاعل الذین اتبعوک فوق الذین کفروا الی یوم القیامۃ ( آل عمران : 55 ) یعنی جس وقت کہا اللہ نے، اے عیسیٰ تحقیق لینے والا ہوں میں تجھ کو اور اٹھانے والا ہوں تجھ کو اپنی طرف اور پاک کرنے والا ہوں تجھ کو ان لوگوں سے کہ کافر ہوئے اور کرنے والا ہوں ان لوگوں کو کہ پیروی کریں گے تیری اوپر ان لوگوں کے کہ کافر ہوئے قیامت کے دن تک۔ یہ ترجمہ شاہ عبدالقادر رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔ آگے فائدہ میں لکھتے ہیں کہ یہود کے عالموں نے ا س وقت کے بادشاہ کو بہکایا کہ یہ شخص ملحد ہے تورات کے حکم سے خلاف بتلاتا ہے اس نے لوگ بھیجے کہ ان کو پکڑ لادیں، جب وہ پہنچے حضرت عیسی علیہ السلام کے یار سرک گئے۔ اس شنابی میں حق تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ایک صورت ان کی رہ گئی۔ اس کو پکڑ کر لائے پھر سولی پر چڑھایا۔ توفی کے اصل و حقیقی معنی اخذ الشی وافیا کے ہیں جیسا کہ بیضاوی و قسطلانی اور رازی وغیرہم نے لکھا ہے۔ اور موت توفی کے معنی مجازی ہیں نہ حقیقی، اسی واسطے بغیر قیام قرینہ کے موت کے معنی میں استعمال نہیں ہوتا اور یہاں کوئی قرینہ موت کا قائم نہیں ہے اس لیے اصل و حقیقی معنی یعنی اخذ الشی و افیا مراد لئے جائیں گے۔ اور انسان کا وافیا لینا یہی ہے کہ مع روح و جسم کے لیا جائے۔ وہو المطلوب۔ لہٰذا یہ آیت بھی حیات مسیح پر قطعی الدلالۃ ہے۔ چوتھی آیت و انہ لعلم للساعۃ فلا تمترن بہا و اتبعون ہذا صراط مستقیم ( الزخرف : 61 ) اور تحقیق وہ عیسیٰ قیامت کی نشانی ہے۔ پس مت شک کرو ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری، یہ ہے راہ سیدھی۔ اس آیت کے ذیل میں تفسیر ابن کثیر میں ہے۔ المراد بذلک نزولہ قبل یوم القیامۃ قال مجاہد و انہ لعلم للساعۃ ای آیۃ للساعۃ خروج عیسیٰ بن مریم قبل یوم القیامۃ و ہکذا روی عن ابی ہریرۃ و ابن عباس و ابی العالیۃ و ابی ملک و عکرمۃ و الحسن و قتادۃ و ضحاک و غیرہم و قد تواترت الاحادیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہ اخبر بنزول عیسی بن مریم علیہ السلام قبل یوم القیامۃ اماما عدلا و حکما مقسطاً ( ابن کثیر ) یعنی یہاں مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ وہ قیامت کے قریب نازل ہوں گے۔ مجاہد نے کہا کہ وہ قیامت کی نشانی ہوں گے۔ یعنی قیامت کی علامت قیامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نازل ہونا ہے اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہما اور ابوالعالیہ اور ابومالک اور عکرمہ اور حسن اور قتادہ اور ضحاک وغیرہ نے بیان فرمایا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں متواتر احادیث صحیحہ موجود ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام قیامت کے قریب امام عادل اور حاکم منصف بن کر نازل ہوں گے۔ آیات قرآنی کے علاوہ ان جملہ احادیث صحیحہ کے لیے دفتر کی ضرورت ہے۔ ان ہی میں سے ایک یہ حدیث بخاری بھی ہے جو یہاں مذکور ہوئی ہے۔ پس حیات مسیح کا عقیدہ جملہ اہل اسلام کا عقیدہ ہے اور یہ کتاب اللہ و احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے جو اس کا انکار کرے وہ قرآن و احادیث کا انکاری ہے۔ ایسے منکروں کے ہفوات پر ہرگز توجہ نہ کرنی چاہئے۔ تفصیل کے لیے بہت سی کتابیں اس موضوع پر موجود ہیں۔ مزید طوالت کی گنجائش نہیں۔ اہل ایمان کے لیے اس قدر بھی کافی ہے۔