‌صحيح البخاري - حدیث 2216

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ الشِّرَاءِ وَالبَيْعِ مَعَ المُشْرِكِينَ وَأَهْلِ الحَرْبِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ أَمْ هِبَةً قَالَ لَا بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2216

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب مشرکوں اور حربی کافروں کے ساتھ خریدو فروخت کرنا سے ابوالنعمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معتمر بن سلیمان نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے کہ ایک مسٹنڈا لمبے قد والا مشرک بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ یہ بیچنے کے لیے ہیں یا عطیہ ہیں؟ یا آپ نے یہ فرمایا کہ ( یہ بیچنے کے لیے ہیں ) یا ہبہ کرنے کے لیے؟ اس نے کہا کہ نہیں بلکہ بیچنے کے لیے ہیں۔ چنانچہ آپ نے اس سے ایک بکری خرید لی۔
تشریح : حافظ فرماتے ہیں : معاملۃ الکفار جائزۃ الا بیع ما یستعین بہ اہل الحرب علی المسلمین و اختلف العلماءفی مبایعۃ من غالب مالہ الحرام و حجۃ من رخص فیہ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم للمشرک ”ابیعا ام ہبۃ“ و فیہ جواز بیع الکافر و اثبات ملکہ علی ما فی یدہ و جواز قبول الہدیۃ منہ ( فتح ) یعنی کفار سے معاملہ داری کرنا جائز ہے مگر ایسا معاملہ درست نہیں جس سے وہ اہل اسلام کے ساتھ جنگ کرنے میں مدد پاسکیں۔ اور اس حدیث کی رو سے کافر کی بیع کو نافذ ماننا بھی ثابت ہوا۔ اور یہ بھی کہ اپنے مال کا وہ اسلامی قانون میں مالک ہی مانا جائے گا اور اس حدیث سے کافر کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔ یہ جملہ قانونی امور ہیں جن کے لیے اسلام میں ہر ممکن گنجائش رکھی گئی ہے۔ مسلمان جب کہ ساری دنیا میں آباد ہیں، ان کے بہت سے لین دین کے معاملات غیر مسلموں کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان سب کو قانونی صورتوں میں بتلایا گیا اور اس سلسلہ میں بہت فراخدلی سے کام لیا گیا ہے جو اسلام کے دین فطرت اور عالمگیر مذہب ہونے کی واضح دلیل ہے۔ حافظ فرماتے ہیں : معاملۃ الکفار جائزۃ الا بیع ما یستعین بہ اہل الحرب علی المسلمین و اختلف العلماءفی مبایعۃ من غالب مالہ الحرام و حجۃ من رخص فیہ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم للمشرک ”ابیعا ام ہبۃ“ و فیہ جواز بیع الکافر و اثبات ملکہ علی ما فی یدہ و جواز قبول الہدیۃ منہ ( فتح ) یعنی کفار سے معاملہ داری کرنا جائز ہے مگر ایسا معاملہ درست نہیں جس سے وہ اہل اسلام کے ساتھ جنگ کرنے میں مدد پاسکیں۔ اور اس حدیث کی رو سے کافر کی بیع کو نافذ ماننا بھی ثابت ہوا۔ اور یہ بھی کہ اپنے مال کا وہ اسلامی قانون میں مالک ہی مانا جائے گا اور اس حدیث سے کافر کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ثابت ہوا۔ یہ جملہ قانونی امور ہیں جن کے لیے اسلام میں ہر ممکن گنجائش رکھی گئی ہے۔ مسلمان جب کہ ساری دنیا میں آباد ہیں، ان کے بہت سے لین دین کے معاملات غیر مسلموں کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں۔ لہٰذا ان سب کو قانونی صورتوں میں بتلایا گیا اور اس سلسلہ میں بہت فراخدلی سے کام لیا گیا ہے جو اسلام کے دین فطرت اور عالمگیر مذہب ہونے کی واضح دلیل ہے۔