‌صحيح البخاري - حدیث 2213

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ بَيْعِ الشَّرِيكِ مِنْ شَرِيكِهِ صحيح حَدَّثَنِي مَحْمُودٌ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشُّفْعَةَ فِي كُلِّ مَالٍ لَمْ يُقْسَمْ فَإِذَا وَقَعَتْ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتْ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2213

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : ایک ساجھی اپنا حصہ دوسرے ساجھی کے ہاتھ بیچ سکتا ہے۔ ہم سے محمود نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں ابوسلمہ نے اور انہیں جابر رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ کا حق ہر اس مال میں قرار دیا تھا جو تقسیم نہ ہوا ہو، لیکن اس کی حد بندی ہو جائے اور راستے بھی پھیر دیئے جائیں تو اب شفعہ کا حق باقی نہیں رہا۔
تشریح : مال سے مراد غیر منقولہ ہے۔ جیسے مکان، زمین، باغ وغیرہ کیوں کہ جائیداد منقولہ میں بالاجماع شفعہ نہیں ہے اور عطاءکا قول شاذ ہے جو کہتے ہیں کہ ہر چیز میں شفعہ ہے۔ یہاں تک کہ کپڑے میں بھی۔ یہ حدیث شافعیہ کے مذہب کی تائید کرتی ہے کہ ہمسایہ کو شفعہ کا حق نہیں ہے صرف شریک کو ہے۔ یہاں امام بخاری نے یہ حدیث لاکر باب کا مطلب اس طرح سے نکالا ہے کہ جب شریک کو شفعہ کا حق ہوا تو وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے گا۔ پس ایک شریک کا اپنا حصہ دوسرے شریک کے ہاتھ بیع کرنا بھی جائز اور یہی ترجمہ باب ہے۔ شفعہ اس حق کو کہا جاتا ہے جو کسی پڑوسی یا کسی ساجھی کو اپنے دوسرے پڑوسی یا ساجھی کی جائیداد میں اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک وہ ساجھی یا پڑوسی اپنی اس جائیداد کو فروخت نہ کردے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایسی جائیداد کی خرید و فروخت میں حق شفعہ رکھنے والا اس کا مجاز ہے کہ جائیداد اگر کسی غیر نے خرید لی تو وہ اس پر دعویٰ کرے اور وہ بیع اول کو فسخ کرا کر خود اسے خرید لے ایسے معاملات میں اولیت حق شفعہ رکھنے والے ہی کو حاصل ہے۔ باقی اس سلسلہ کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ جن میں سے کچھ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں احادیث کی روشنی میں بیان بھی کر دی ہیں۔ مروجہ محمڈن لاء ( بھارت ) میں اس کی بہت سی صورتیں مذکور ہیں۔ مال سے مراد غیر منقولہ ہے۔ جیسے مکان، زمین، باغ وغیرہ کیوں کہ جائیداد منقولہ میں بالاجماع شفعہ نہیں ہے اور عطاءکا قول شاذ ہے جو کہتے ہیں کہ ہر چیز میں شفعہ ہے۔ یہاں تک کہ کپڑے میں بھی۔ یہ حدیث شافعیہ کے مذہب کی تائید کرتی ہے کہ ہمسایہ کو شفعہ کا حق نہیں ہے صرف شریک کو ہے۔ یہاں امام بخاری نے یہ حدیث لاکر باب کا مطلب اس طرح سے نکالا ہے کہ جب شریک کو شفعہ کا حق ہوا تو وہ دوسرے شریک کا حصہ خرید لے گا۔ پس ایک شریک کا اپنا حصہ دوسرے شریک کے ہاتھ بیع کرنا بھی جائز اور یہی ترجمہ باب ہے۔ شفعہ اس حق کو کہا جاتا ہے جو کسی پڑوسی یا کسی ساجھی کو اپنے دوسرے پڑوسی یا ساجھی کی جائیداد میں اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک وہ ساجھی یا پڑوسی اپنی اس جائیداد کو فروخت نہ کردے۔ شریعت کا حکم یہ ہے کہ ایسی جائیداد کی خرید و فروخت میں حق شفعہ رکھنے والا اس کا مجاز ہے کہ جائیداد اگر کسی غیر نے خرید لی تو وہ اس پر دعویٰ کرے اور وہ بیع اول کو فسخ کرا کر خود اسے خرید لے ایسے معاملات میں اولیت حق شفعہ رکھنے والے ہی کو حاصل ہے۔ باقی اس سلسلہ کی بہت سی تفصیلات ہیں۔ جن میں سے کچھ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں احادیث کی روشنی میں بیان بھی کر دی ہیں۔ مروجہ محمڈن لاء ( بھارت ) میں اس کی بہت سی صورتیں مذکور ہیں۔