كِتَابُ الوُضُوءِ بَابٌ: مِنَ الكَبَائِرِ أَنْ لاَ يَسْتَتِرَ مِنْ بَوْلِهِ صحيح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَائِطٍ مِنْ حِيطَانِ المَدِينَةِ، أَوْ مَكَّةَ، فَسَمِعَ صَوْتَ إِنْسَانَيْنِ يُعَذَّبَانِ فِي قُبُورِهِمَا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يُعَذَّبَانِ، وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي كَبِيرٍ» ثُمَّ قَالَ: «بَلَى، كَانَ أَحَدُهُمَا لاَ يَسْتَتِرُ مِنْ بَوْلِهِ، وَكَانَ الآخَرُ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ». ثُمَّ دَعَا بِجَرِيدَةٍ، فَكَسَرَهَا كِسْرَتَيْنِ، فَوَضَعَ عَلَى كُلِّ قَبْرٍ مِنْهُمَا كِسْرَةً، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ فَعَلْتَ هَذَا؟ قَالَ: «لَعَلَّهُ أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُمَا مَا لَمْ تَيْبَسَا» أَوْ: «إِلَى أَنْ يَيْبَسَا»
کتاب: وضو کے بیان میں
باب: پیشاب کی چھینٹوں سے نہ بچنا کبیرہ گناہ ہے
ہم سے عثمان نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے نقل کیا، وہ مجاہد سے وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مدینہ یا مکے کے ایک باغ میں تشریف لے گئے۔ ( وہاں ) آپ نے دو شخصوں کی آواز سنی جنھیں ان کی قبروں میں عذاب کیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان پر عذاب ہو رہا ہے اور کسی بہت بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بات یہ ہے کہ ایک شخص ان میں سے پیشاب کے چھینٹوں سے بچنے کا اہتمام نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خوری کیا کرتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ( کھجور کی ) ایک ڈالی منگوائی اور اس کو توڑ کر دو ٹکڑے کیا اور ان میں سے ( ایک ایک ٹکڑا ) ہر ایک کی قبر پر رکھ دیا۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس لیے کہ جب تک یہ ڈالیاں خشک ہوں شاید اس وقت تک ان پر عذاب کم ہو جائے۔
تشریح :
اس حدیث سے عذاب قبرثابت ہوا۔ یہ دونوں قبروں والے مسلمان ہی تھے اور قبریں بھی نئی تھیں۔ ہری ڈالیاں تسبیح کرتی ہیں اس وجہ سے عذاب میں کمی ہوئی ہوگی۔ بعض کہتے ہیں کہ عذاب کا کم ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ہوا تھا ان ڈالیوں کا اثرنہ تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔
اس حدیث سے عذاب قبرثابت ہوا۔ یہ دونوں قبروں والے مسلمان ہی تھے اور قبریں بھی نئی تھیں۔ ہری ڈالیاں تسبیح کرتی ہیں اس وجہ سے عذاب میں کمی ہوئی ہوگی۔ بعض کہتے ہیں کہ عذاب کا کم ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ہوا تھا ان ڈالیوں کا اثرنہ تھا۔ واللہ اعلم بالصواب۔