كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ مَا قِيلَ فِي الصَّوَّاغِ صحيح حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ خَالِدٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ مَكَّةَ وَلَمْ تَحِلَّ لِأَحَدٍ قَبْلِي وَلَا لِأَحَدٍ بَعْدِي وَإِنَّمَا حَلَّتْ لِي سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ لَا يُخْتَلَى خَلَاهَا وَلَا يُعْضَدُ شَجَرُهَا وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا وَلَا يُلْتَقَطُ لُقْطَتُهَا إِلَّا لِمُعَرِّفٍ وَقَالَ عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ إِلَّا الْإِذْخِرَ لِصَاغَتِنَا وَلِسُقُفِ بُيُوتِنَا فَقَالَ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَقَالَ عِكْرِمَةُ هَلْ تَدْرِي مَا يُنَفَّرُ صَيْدُهَا هُوَ أَنْ تُنَحِّيَهُ مِنْ الظِّلِّ وَتَنْزِلَ مَكَانَهُ قَالَ عَبْدُ الْوَهَّابِ عَنْ خَالِدٍ لِصَاغَتِنَا وَقُبُورِنَا
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
باب : سناروں کا بیان
ہم سے اسحاق بن شاہین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا،، ان سے خالد نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے مکہ کو حرمت ولا شہر قرار دیا ہے۔ یہ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال تھا اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہوگا۔ میرے لیے بھی ایک دن چند لمحات کے لیے لیے حلال ہوا تھا۔ سوا اب اس کی نہ گھاس کاٹی جائے، نہ اس کے درخت کاٹے جائیں، نہ اس کے شکار بھگائے جائیں، اور نہ اس میں کوئی گری ہوئی چیز اٹھائی جائے۔ صرف معرف ( یعنی گمشدہ چیز کو اصل مالک تک اعلان کے ذریعہ پہنچانے والے ) کو اس کی اجازت ہے۔ عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اذخر کے لیے اجازت دے دیجئے، کہ یہ ہمارے سناروں اور ہمارے گھروں کی چھتوں کے کام میں آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اذخر کی اجازت دے دی۔ عکرمہ نے کہا، یہ بھی معلوم ہے کہ حرم کے شکار کو بھگانے کا مطلب کیا ہے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ( کسی درخت کے سائے تلے اگر وہ بیٹھا ہوا ہو تو ) تم سائے سے اسے ہٹا کر خود وہاں بیٹھ جاؤ۔ عبدالوہاب نے خالد سے ( اپنی روایت میں یہ الفاظ ) بیان کئے کہ ( اذخر ) ہمارے سناروں اور ہماری قبروں کے کام میں آتی ہے۔
تشریح :
یعنی بجائے چھتوں کے عبدالوہاب کی روایت میں قبروں کا ذکر ہے۔ عرب لوگ اذخر کو قبروں میں بھی ڈالتے اور چھت بھی اس سے پاٹتے وہ ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ عبدالوہاب کی روایت کو خو دامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الحج میں نکالا ہے۔ روایت میں سناروں کا ذکر ہے، اسی سے اس پیشہ کا درست ہونا ثابت ہوا۔ سنار جو سونا چاندی وغیرہ سے عورتوں کے زیور بنانے کا دھندا کرتے ہیں۔
یعنی بجائے چھتوں کے عبدالوہاب کی روایت میں قبروں کا ذکر ہے۔ عرب لوگ اذخر کو قبروں میں بھی ڈالتے اور چھت بھی اس سے پاٹتے وہ ایک خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ عبدالوہاب کی روایت کو خو دامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الحج میں نکالا ہے۔ روایت میں سناروں کا ذکر ہے، اسی سے اس پیشہ کا درست ہونا ثابت ہوا۔ سنار جو سونا چاندی وغیرہ سے عورتوں کے زیور بنانے کا دھندا کرتے ہیں۔