‌صحيح البخاري - حدیث 2088

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ الحَلِفِ فِي البَيْعِ صحيح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا أَقَامَ سِلْعَةً وَهُوَ فِي السُّوقِ فَحَلَفَ بِاللَّهِ لَقَدْ أَعْطَى بِهَا مَا لَمْ يُعْطِ لِيُوقِعَ فِيهَا رَجُلًا مِنْ الْمُسْلِمِينَ فَنَزَلَتْ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا الْآيَةَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2088

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : خرید و فروخت میں قسم کھانا مکروہ ہے ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عوام بن حوشب نے خبر دی، انہیں ابراہیم بن عبدالرحمن نے اور انہیں عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے کہ بازار میں ایک شخص نے ایک سامان دکھا کر قسم کھائی کہ اس کی اتنی قیمت لگ چکی ہے۔ حالانکہ اس کی اتنی قیمت نہیں لگی تھی اس قسم سے اس کا مقصد ایک مسلمان کو دھوکہ دینا تھا۔ اس پر یہ آیت اتری ” جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچتے ہیں۔ “
تشریح : آخرت میں ان کے لیے کچھ حصہ نہیں ہے اور نہ ان سے اللہ کلام کرے گا اور نہ ان پر نظر رحمت ہوگی۔ اور نہ ان کو پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نام کی جھوٹی قسم کھانا بدترین گناہ ہے۔ علمائے کرام نے کسی سچے معاملہ میں بھی بطور تنزیہ اللہ کے نام کی قسم کھانا پسند نہیں کیا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور جھوٹی قسموں سے اپنا مال فروخت کرنے والا اور احسان جتلانے والا یہ وہ مجرم ہیں جن پر حشر میں اللہ کی نظر رحمت نہیں ہوگی۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ تجارت میں ہر وقت سچائی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ جھوٹ بولنے والا تاجر عنداللہ سخت مجرم قرار پاتا ہے۔ آخرت میں ان کے لیے کچھ حصہ نہیں ہے اور نہ ان سے اللہ کلام کرے گا اور نہ ان پر نظر رحمت ہوگی۔ اور نہ ان کو پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دکھ دینے والا عذاب ہے۔ معلوم ہوا کہ اللہ کے نام کی جھوٹی قسم کھانا بدترین گناہ ہے۔ علمائے کرام نے کسی سچے معاملہ میں بھی بطور تنزیہ اللہ کے نام کی قسم کھانا پسند نہیں کیا ہے۔ مسند احمد میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنی ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور جھوٹی قسموں سے اپنا مال فروخت کرنے والا اور احسان جتلانے والا یہ وہ مجرم ہیں جن پر حشر میں اللہ کی نظر رحمت نہیں ہوگی۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد باب یہ ہے کہ تجارت میں ہر وقت سچائی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ جھوٹ بولنے والا تاجر عنداللہ سخت مجرم قرار پاتا ہے۔