‌صحيح البخاري - حدیث 2058

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى صحيح حَدَّثَنَا طَلْقُ بْنُ غَنَّامٍ حَدَّثَنَا زَائِدَةُ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ سَالِمٍ قَالَ حَدَّثَنِي جَابِرٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ نُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ أَقْبَلَتْ مِنْ الشَّأْمِ عِيرٌ تَحْمِلُ طَعَامًا فَالْتَفَتُوا إِلَيْهَا حَتَّى مَا بَقِيَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا اثْنَا عَشَرَ رَجُلًا فَنَزَلَتْ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انْفَضُّوا إِلَيْهَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2058

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : اللہ تعالیٰ کا فرمانا کہ ہم سے طلق بن غنام نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زائدہ بن قدامہ نے بیان کیا، ان سے حصین نے، ان سے سالم بن ابی الجعد نے کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھ رہے تھے۔ ( یعنی خطبہ سن رہے تھے ) کہ ملک شام سے کچھ اونٹ کھانے کا سامان تجارت لے کر آئے۔ ( سب نمازی ) لوگ ان کی طرف متوجہ ہو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ آدمیوں کے سوا اور کوئی باقی نہ رہا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ” جب وہ مال تجارت یا کوئی تماشا دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔ “
تشریح : ہوا یہ تھا کہ اس زمانہ میں مدینہ میں غلہ کا قحط تھا۔ لوگ بہت بھوکے اور پریشان تھے۔ شام سے جو غلہ کا قافلہ آیا تو لوگ بے اختیار ہو کر اس کو دیکھنے چل دیئے، صرف بارہ صحابہ یعنی عشرہ مبشرہ اور بلال اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کچھ معصوم نہ تھے بشر تھے۔ ان سے یہ خطا ہو گئی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عتاب فرمایا۔ شاید اس وقت تک ان کو یہ معلوم نہ رہاہوگا کہ خطبہ میں سے اٹھ کر جانا منع ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب کو اس لیے یہاں لائے کہ بیع اور شراء، تجارت اور سوداگری گو عمدہ اور مباح چیز یں ہیں مگر جب عبادت میں ان کی وجہ سے خلل ہو تو ان کو چھوڑ دینا چاہئے۔ یہ مقصد بھی ہے کہ جس تجارت سے یا دالٰہی میں فرق آئے مسلمان کے لیے وہ تجارت بھی مناسب نہیں ہے کیوں کہ مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد یاد الٰہی ہے۔ اس کے علاوہ جملہ مشغولیات عارضی ہیں۔ جن کا محض بقائے حیات ک لیے انجام دینا ضروری ہے ورنہ مقصد وحید صرف یاد الٰہی ہے۔ ہوا یہ تھا کہ اس زمانہ میں مدینہ میں غلہ کا قحط تھا۔ لوگ بہت بھوکے اور پریشان تھے۔ شام سے جو غلہ کا قافلہ آیا تو لوگ بے اختیار ہو کر اس کو دیکھنے چل دیئے، صرف بارہ صحابہ یعنی عشرہ مبشرہ اور بلال اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ٹھہرے رہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کچھ معصوم نہ تھے بشر تھے۔ ان سے یہ خطا ہو گئی جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عتاب فرمایا۔ شاید اس وقت تک ان کو یہ معلوم نہ رہاہوگا کہ خطبہ میں سے اٹھ کر جانا منع ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب کو اس لیے یہاں لائے کہ بیع اور شراء، تجارت اور سوداگری گو عمدہ اور مباح چیز یں ہیں مگر جب عبادت میں ان کی وجہ سے خلل ہو تو ان کو چھوڑ دینا چاہئے۔ یہ مقصد بھی ہے کہ جس تجارت سے یا دالٰہی میں فرق آئے مسلمان کے لیے وہ تجارت بھی مناسب نہیں ہے کیوں کہ مسلمان کی زندگی کا اصل مقصد یاد الٰہی ہے۔ اس کے علاوہ جملہ مشغولیات عارضی ہیں۔ جن کا محض بقائے حیات ک لیے انجام دینا ضروری ہے ورنہ مقصد وحید صرف یاد الٰہی ہے۔