‌صحيح البخاري - حدیث 2056

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ مَنْ لَمْ يَرَ الوَسَاوِسَ وَنَحْوَهَا مِنَ الشُّبُهَاتِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ عَنْ عَمِّهِ قَالَ شُكِيَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّجُلُ يَجِدُ فِي الصَّلَاةِ شَيْئًا أَيَقْطَعُ الصَّلَاةَ قَالَ لَا حَتَّى يَسْمَعَ صَوْتًا أَوْ يَجِدَ رِيحًا وَقَالَ ابْنُ أَبِي حَفْصَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ لَا وُضُوءَ إِلَّا فِيمَا وَجَدْتَ الرِّيحَ أَوْ سَمِعْتَ الصَّوْتَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2056

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : دل میں وسوسہ آنے سے شبہ نہ کرنا چاہئیے ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے زہری نے، ان سے عباد بن تمیم نے اور ان سے ان کے چچا عبداللہ بن زید مازنی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک ایسے شخص کا ذکر آیا جسے نماز میں کچھ شبہ ہوا نکلنے کا ہو جاتا ہے۔ آیا اسے نماز توڑ دینی چاہئے؟ فرمایا کہ نہیں۔ جب تک وہ آواز نہ سن لے یا بدبو نہ محسوس کرلے ( اس وقت تک نماز نہ توڑے ) ابن ابی حفصہ نے زہری سے بیان کیا ( ایسے شخص پر ) وضو واجب نہیں جب تک حدث کی بدبو نہ محسوس کرے یا آواز نہ سن لے۔
تشریح : اس حدیث کے تحت علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال الغزالی الورع اقسام ورع الصدیقین وہو ترک مالا یتناول بغیر نیۃ القوۃ علی العبادۃ وورع المتقین وہو ترک مالا شبہۃ فیہ ولکن یخشی ان یجر الی الحرام و ورع الصالحین و ہو ترک ما یتطرق الیہ احتمال التحریم بشرط ان یکون لذلک الاحتمال موقع فان لم یکن فہو ورع الموسوسین قال ووراءذلک ورع الشہود و ہو ترک ما یسقط الشہادۃ ای اعم من ان یکون ذلک المتروک حراما ام لا انتہی و غرض المصنف ہنا بیان ورع الموسوسین کمن یمتنع من اکل الصید کان لانسان ثم افلت منہ وکمن یترک شراءما یحتاج الیہ من المجہول لا یدری اما لہ حلال ام حرام و لیست ہناک علامۃ تدل علی الثانی و کمن یترک تناول الشئی لخبر ورد فیہ متفق علی ضعفہ و عدم الاحتجاج بہ و یکون دلیل اباحتہ قویا و تاویلہ ممتنع او مستبعد ( فتح الباری ) یعنی امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ورع کو چار قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک ورع صدیقین کا ہے وہ یہ کہ ان تمام کاموں کو چھوڑ دینا جن کا بطور نیت عبادت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ متقین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا جن کی حلت میں کوئی شبہ نہیں مگر خطرہ ہے کہ ان کو عمل میں لانے سے کہیں حرام تک نوبت نہ پہنچ جائے، اور صالحین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں سے دور رہنا جن میں حرمت کے احتمال کے لیے کوئی بھی موقع نکل سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ وسواسیوں کا ورع ہے اور ان کے علاوہ ایک ورع الشہود ہے جس کے ارتکاب سے انسان شہادت میں ناقابل اعتبا رہو جائے عام ہے کہ وہ حرام ہو یا نہ ہو۔ یہاں مصنف رحمۃ اللہ علیہ کی غرض وسوسہ والوں کے ورع کا بیان ہے جیسا کہ کسی شکار کا گوشت محض اس لیے نہ کھائے کہ شاید وہ شکار کسی اور آدمی نے بھی کیا ہو اور اس سے وہ جانور بھاگ گیا ہو۔ یا جیسا کہ ایسے آدمی کے ہاتھ سے خرید و فروخت چھوڑ دے جو مجہول ہو اور جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا مال حرام کا ہے یا حلا ل کا۔ اور کوئی ظاہری دلیل بھی نہ ہو کہ اس کی حلت ہی پر یقین کیا جاسکے۔ اور جیسا کہ کوئی شخص ایسے آدمی کی روایت ترک کردے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہو اور جس کے ساتھ حجت نہ پکڑی جاسکتی ہو، ایسے جملہ مشکوک حالات میں پرہیزگاری کا نام ورع ہے۔ مگر حد سے زیادہ گزر کر کسی مسلمان بھائی کے متعلق بلا تحقیق کوئی غلط گمان قائم کر لینا یہ بھی ورع کے سخت خلاف ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے کسی جگہ لکھا ہے کہ کچھ لوگ نماز کے لیے اپنا لوٹا مصلی اس خیال سے ساتھ رکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں دنیا کے سارے مسلمان کے لوٹے اور مصلے استعمال کے لائق نہیں ہیں۔ اور ان سب میں شبہ داخل ہے۔ صرف انہی کا لوٹا اور مصلی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے پرہیزگاروں کو ”خود گندے“ قرار دیا ہے۔ اللہم احفظنا من جمیع الشبہات و الافات۔ آمین اس حدیث کے تحت علامہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں قال الغزالی الورع اقسام ورع الصدیقین وہو ترک مالا یتناول بغیر نیۃ القوۃ علی العبادۃ وورع المتقین وہو ترک مالا شبہۃ فیہ ولکن یخشی ان یجر الی الحرام و ورع الصالحین و ہو ترک ما یتطرق الیہ احتمال التحریم بشرط ان یکون لذلک الاحتمال موقع فان لم یکن فہو ورع الموسوسین قال ووراءذلک ورع الشہود و ہو ترک ما یسقط الشہادۃ ای اعم من ان یکون ذلک المتروک حراما ام لا انتہی و غرض المصنف ہنا بیان ورع الموسوسین کمن یمتنع من اکل الصید کان لانسان ثم افلت منہ وکمن یترک شراءما یحتاج الیہ من المجہول لا یدری اما لہ حلال ام حرام و لیست ہناک علامۃ تدل علی الثانی و کمن یترک تناول الشئی لخبر ورد فیہ متفق علی ضعفہ و عدم الاحتجاج بہ و یکون دلیل اباحتہ قویا و تاویلہ ممتنع او مستبعد ( فتح الباری ) یعنی امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ورع کو چار قسموں پر تقسیم کیا ہے ایک ورع صدیقین کا ہے وہ یہ کہ ان تمام کاموں کو چھوڑ دینا جن کا بطور نیت عبادت سے کوئی تعلق نہ ہو۔ متقین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں کو بھی چھوڑ دینا جن کی حلت میں کوئی شبہ نہیں مگر خطرہ ہے کہ ان کو عمل میں لانے سے کہیں حرام تک نوبت نہ پہنچ جائے، اور صالحین کا ورع یہ کہ ایسی چیزوں سے دور رہنا جن میں حرمت کے احتمال کے لیے کوئی بھی موقع نکل سکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ وسواسیوں کا ورع ہے اور ان کے علاوہ ایک ورع الشہود ہے جس کے ارتکاب سے انسان شہادت میں ناقابل اعتبا رہو جائے عام ہے کہ وہ حرام ہو یا نہ ہو۔ یہاں مصنف رحمۃ اللہ علیہ کی غرض وسوسہ والوں کے ورع کا بیان ہے جیسا کہ کسی شکار کا گوشت محض اس لیے نہ کھائے کہ شاید وہ شکار کسی اور آدمی نے بھی کیا ہو اور اس سے وہ جانور بھاگ گیا ہو۔ یا جیسا کہ ایسے آدمی کے ہاتھ سے خرید و فروخت چھوڑ دے جو مجہول ہو اور جس کے بارے میں معلوم نہ ہو کہ اس کا مال حرام کا ہے یا حلا ل کا۔ اور کوئی ظاہری دلیل بھی نہ ہو کہ اس کی حلت ہی پر یقین کیا جاسکے۔ اور جیسا کہ کوئی شخص ایسے آدمی کی روایت ترک کردے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہو اور جس کے ساتھ حجت نہ پکڑی جاسکتی ہو، ایسے جملہ مشکوک حالات میں پرہیزگاری کا نام ورع ہے۔ مگر حد سے زیادہ گزر کر کسی مسلمان بھائی کے متعلق بلا تحقیق کوئی غلط گمان قائم کر لینا یہ بھی ورع کے سخت خلاف ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے کسی جگہ لکھا ہے کہ کچھ لوگ نماز کے لیے اپنا لوٹا مصلی اس خیال سے ساتھ رکھتے ہیں کہ ان کے خیال میں دنیا کے سارے مسلمان کے لوٹے اور مصلے استعمال کے لائق نہیں ہیں۔ اور ان سب میں شبہ داخل ہے۔ صرف انہی کا لوٹا اور مصلی ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے ایسے پرہیزگاروں کو ”خود گندے“ قرار دیا ہے۔ اللہم احفظنا من جمیع الشبہات و الافات۔ آمین