‌صحيح البخاري - حدیث 2054

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ تَفْسِيرِ المُشَبَّهَاتِ صحيح حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي السَّفَرِ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْمِعْرَاضِ فَقَالَ إِذَا أَصَابَ بِحَدِّهِ فَكُلْ وَإِذَا أَصَابَ بِعَرْضِهِ فَقَتَلَ فَلَا تَأْكُلْ فَإِنَّهُ وَقِيذٌ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أُرْسِلُ كَلْبِي وَأُسَمِّي فَأَجِدُ مَعَهُ عَلَى الصَّيْدِ كَلْبًا آخَرَ لَمْ أُسَمِّ عَلَيْهِ وَلَا أَدْرِي أَيُّهُمَا أَخَذَ قَالَ لَا تَأْكُلْ إِنَّمَا سَمَّيْتَ عَلَى كَلْبِكَ وَلَمْ تُسَمِّ عَلَى الْآخَرِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2054

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : ملتی جلتی چیزیں یعنی شبہ والے امور کیا ہیں؟ ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن ابی سفر نے خبر دی، انہیں شعبی نے، ان سے عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ” معراض “ ( تیر کے شکار ) کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر اس کے دھار کی طرف سے لگے تو کھا۔ اگر چوڑائی سے لگے تو مت کھا۔ کیوں کہ وہ مردار ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں اپنا کتا ( شکار کے لیے ) چھوڑتا ہوں اور بسم اللہ پڑھ لیتا ہوں، پھر اس کے ساتھ مجھے ایک ایسا کتا او رملتا ہے جس پر میں نے بسم اللہ نہیں پڑھی ہے۔ میں یہ فیصلہ نہیں کر پاتا کہ دونوں میں کون سے کتے نے شکار پکڑا۔ آپ نے فرمایا، ایسے شکار کا گوشت نہ کھا۔ کیوں کہ تو نے بسم اللہ تو اپنے کتے کے لیے پڑھی ہے۔ دوسرے کے لیے تو نہیں پڑھی۔
تشریح : چوڑائی سے لگنے کا مطلب یہ ہے کہ تیر کی لکڑی آڑی ہو کر شکار کے جانور پر لگے۔ اور بوجھ اور صدمے سے وہ مر جائے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس حدیث کو مشتبہات کی تفسیر میں لائے کہ دوسرے کتے کی موجودگی میں شبہ ہو گیا کہ شکار کون سے کتے نے پکڑا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شبہ کو رفع کرنے کے لیے ایسے شکار کے کھانے سے منع فرمادیا۔ عربوں میں شکاری کتوں کو سدھانے کے دستور تھا۔ شریعت اسلامیہ نے اجازت دی کہ ایسا سدھایا ہوا کتا اگر بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے اور وہ شکار کر پکڑ لے اور مالک کے پہنچنے سے پہلے شکار مرجائے تو گویا ایسا شکار حلال ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جس جانور پر بسم اللہ نہ پڑھاجائے وہ حرام اور مردار ہے، اہل حدیث اور اہل ظاہر کا یہی قول ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مسلمان کا ذبیحہ ہر حال میں حلال ہے گو وہ عمداً یا سہواً بسم اللہ چھوڑ دے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ اس جانور میں شبہ پڑ گیا کہ کس کتے نے اس کو مارا۔ اور آپ نے اس کے کھانے سے منع فرمایا تو معلوم ہوا کہ شبہ کی چیزوں سے بچنا چاہئے۔ ( وحیدی ) چوڑائی سے لگنے کا مطلب یہ ہے کہ تیر کی لکڑی آڑی ہو کر شکار کے جانور پر لگے۔ اور بوجھ اور صدمے سے وہ مر جائے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس حدیث کو مشتبہات کی تفسیر میں لائے کہ دوسرے کتے کی موجودگی میں شبہ ہو گیا کہ شکار کون سے کتے نے پکڑا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی شبہ کو رفع کرنے کے لیے ایسے شکار کے کھانے سے منع فرمادیا۔ عربوں میں شکاری کتوں کو سدھانے کے دستور تھا۔ شریعت اسلامیہ نے اجازت دی کہ ایسا سدھایا ہوا کتا اگر بسم اللہ پڑھ کر چھوڑا جائے اور وہ شکار کر پکڑ لے اور مالک کے پہنچنے سے پہلے شکار مرجائے تو گویا ایسا شکار حلال ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی ظاہر ہوا کہ جس جانور پر بسم اللہ نہ پڑھاجائے وہ حرام اور مردار ہے، اہل حدیث اور اہل ظاہر کا یہی قول ہے اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ مسلمان کا ذبیحہ ہر حال میں حلال ہے گو وہ عمداً یا سہواً بسم اللہ چھوڑ دے۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کا مطلب یوں نکالا کہ اس جانور میں شبہ پڑ گیا کہ کس کتے نے اس کو مارا۔ اور آپ نے اس کے کھانے سے منع فرمایا تو معلوم ہوا کہ شبہ کی چیزوں سے بچنا چاہئے۔ ( وحیدی )