‌صحيح البخاري - حدیث 2053

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ تَفْسِيرِ المُشَبَّهَاتِ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ قَزَعَةَ حَدَّثَنَا مَالِكٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلَى أَخِيهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيدَةِ زَمْعَةَ مِنِّي فَاقْبِضْهُ قَالَتْ فَلَمَّا كَانَ عَامَ الْفَتْحِ أَخَذَهُ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَالَ ابْنُ أَخِي قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فَقَالَ أَخِي وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ سَعْدٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْنُ أَخِي كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيهِ فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ أَخِي وَابْنُ وَلِيدَةِ أَبِي وُلِدَ عَلَى فِرَاشِهِ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجِبِي مِنْهُ لِمَا رَأَى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2053

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : ملتی جلتی چیزیں یعنی شبہ والے امور کیا ہیں؟ ہم سے یحییٰ بن قزعہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ عتبہ بن ابی وقاص ( کافر ) نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص ( مسلمان ) کو ( مرتے وقت ) وصیت کی تھی کہ زمعہ کی باندی کا لڑکا میرا ہے۔ اس لیے اسے تم اپنے قبضہ میں لے لینا۔ انہوں نے کہا کہ فتح مکہ کے سال سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص نے اسے لے لیا، اور کہا کہ یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور وہ اس کے متعلق مجھے وصیت کر گئے ہیں، لیکن عبد بن زمعہ نے اٹھ کر کہا کہ میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے، میرے باپ کے بستر پر پیدا ہوا ہے۔ آخر دونوں یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! یہ میرے بھائی کا لڑکا ہے اور مجھے اس کی انہوں نے وصیت کی تھی۔ اور عبد بن زمعہ نے عرض کیا، یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا لڑکا ہے۔ انہیں کے بستر پر اس کی پیدائش ہوئی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبد بن زمعہ ! لڑکا تو تمہارے ہی ساتھ رہے گا۔ اس کے بعد فرمایا، بچہ اسی کا ہوتا ہے جو جائز شوہر یا مالک ہو جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہو۔ اور حرام کار کے حصہ میں پتھر وں کی سزا ہے۔ پھر سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا سے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں، فرمایا کہ اس لڑکے سے پردہ کیا کر، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبہ کی شباہت اس لڑکے میں محسوس کر لی تھی۔ اس کے بعد اس لڑکے نے سودہ رضی اللہ عنہ کو کبھی نہ دیکھا یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جا ملا۔
تشریح : روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل یہ کہ عتبہ بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص مشہور صحابی کا بھائی تھا۔ عتبہ اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھا اور کفر ہی پر اس کی موت ہوئی، زمعہ نامی ایک شخص کی لونڈی سے اسی عتبہ نے زنا کیا اور وہ حاملہ ہو گئی۔ عتبہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بھائی حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل مجھ سے ہے۔ لہٰذا اس کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہو اس کو تم اپنی تحویل میں لے لینا، چنانچہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے لڑکا پیدا ہوا۔ اور وہ ان ہی کے ہاں پرورش پاتا رہا۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے چاہا کہ اپنے بھائی کی وصیت کے تحت اس بچہ کو اپنی پرورش میں لے لیں۔ مگر زمعہ کا بیٹا عبد بن زمعہ کہنے لگا کہ یہ میرے والد کی لونڈی کا بچہ ہے۔ اس لیے اس کا وارث میں ہوں جب یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قانون پیش فرمایا کہ ”الولد للفراش و للعاہر الحجر“ بچہ اسی کا گردانا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے فرد کے زنا کا نتیجہ ہے۔ اس فرد کے حصہ میں شرعی سنگساری ہے۔ اس قانون کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ عبد بن زمعہ ہی کو دے دیا، مگر بچہ کی مشابہت عتبہ بن ابی وقاص ہی سے تھی، اس لیے اس شبہ کی بناءپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ وہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناطے بظاہر اس لڑکے کی بہن تھیں۔ مگر لڑکا مشتبہ ہو گیا لہٰذا مناسب ہوا کہ وہ اس سے غیروں کی طرح پردہ کریں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سودہ رضی اللہ عنہا کو پردہ کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطا دیا گیا تھا کہ باندی کے ناجائز تعلقات عتبہ سے تھے اور بچے میں اسی کی شباہت تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مشتبہات کی تفسیر اور ان سے بچنے کا حکم ثابت فرمانا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و وجہ الدلالۃ منہ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم احتجبی منہ یا سودۃ مع حکمہ بانہ اخوہا لابیہا لکن لما رای الشبہ البین فیہ من غیر زمعہ امر سودۃ بالاحتجاب منہ احتیاطا فی قول الاکثر ( فتح الباری ) یعنی یہاں مشتبہات کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد مبارک ہے جو آپ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا کہ بظاہر تمہارا بھائی ہے اور اسلامی قانون بھی اسی کو ثابت کرتا ہے مگر شبہ یقینا ہے کہ یہ عتبہ کا ہی لڑکا ہو جیسا کہ اس میں اس سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ پس بہتر ہے کہ تم اس سے پردہ کرو۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اس ارشاد نبوی پر عمل کیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ الولد للفراش کا مطلب الوالد لصاحب الفراش یعنی بچہ قانوناً اسی کا تسلیم کیا جائے گا جو اس بستر کا مالک ہے جس پر بچہ پیدا ہوا ہے یعنی جو اس کا شرعی و قانونی مالک یا خاوند ہے۔ بچہ اسی کا مانا جائے گا اگرچہ وہ کسی دوسرے کے نطفہ ہی سے کیوں نہ ہو اگر ایسا مقدمہ ثابت ہو جائے تو پھر زانی کے لیے محض سنگساری ہے۔ روایت میں جو واقعہ بیان ہوا ہے اس کی تفصیل یہ کہ عتبہ بن ابی وقاص حضرت سعد بن ابی وقاص مشہور صحابی کا بھائی تھا۔ عتبہ اسلام کے شدید ترین دشمنوں میں سے تھا اور کفر ہی پر اس کی موت ہوئی، زمعہ نامی ایک شخص کی لونڈی سے اسی عتبہ نے زنا کیا اور وہ حاملہ ہو گئی۔ عتبہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے بھائی حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کو وصیت کی کہ زمعہ کی لونڈی کا حمل مجھ سے ہے۔ لہٰذا اس کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہو اس کو تم اپنی تحویل میں لے لینا، چنانچہ زمعہ کی لونڈی کے بطن سے لڑکا پیدا ہوا۔ اور وہ ان ہی کے ہاں پرورش پاتا رہا۔ جب مکہ فتح ہوا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے چاہا کہ اپنے بھائی کی وصیت کے تحت اس بچہ کو اپنی پرورش میں لے لیں۔ مگر زمعہ کا بیٹا عبد بن زمعہ کہنے لگا کہ یہ میرے والد کی لونڈی کا بچہ ہے۔ اس لیے اس کا وارث میں ہوں جب یہ مقدمہ عدالت نبوی میں پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قانون پیش فرمایا کہ ”الولد للفراش و للعاہر الحجر“ بچہ اسی کا گردانا جائے گا جس کے بستر پر وہ پیدا ہوا ہے اگرچہ وہ کسی دوسرے فرد کے زنا کا نتیجہ ہے۔ اس فرد کے حصہ میں شرعی سنگساری ہے۔ اس قانون کے تحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ عبد بن زمعہ ہی کو دے دیا، مگر بچہ کی مشابہت عتبہ بن ابی وقاص ہی سے تھی، اس لیے اس شبہ کی بناءپر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام المومنین سودہ رضی اللہ عنہا کو حکم فرمایا کہ وہ زمعہ کی بیٹی ہونے کے ناطے بظاہر اس لڑکے کی بہن تھیں۔ مگر لڑکا مشتبہ ہو گیا لہٰذا مناسب ہوا کہ وہ اس سے غیروں کی طرح پردہ کریں۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سودہ رضی اللہ عنہا کو پردہ کا حکم اسی اشتباہ کی وجہ سے احتیاطا دیا گیا تھا کہ باندی کے ناجائز تعلقات عتبہ سے تھے اور بچے میں اسی کی شباہت تھی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد مشتبہات کی تفسیر اور ان سے بچنے کا حکم ثابت فرمانا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و وجہ الدلالۃ منہ قولہ صلی اللہ علیہ وسلم احتجبی منہ یا سودۃ مع حکمہ بانہ اخوہا لابیہا لکن لما رای الشبہ البین فیہ من غیر زمعہ امر سودۃ بالاحتجاب منہ احتیاطا فی قول الاکثر ( فتح الباری ) یعنی یہاں مشتبہات کی دلیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد مبارک ہے جو آپ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو فرمایا کہ بظاہر تمہارا بھائی ہے اور اسلامی قانون بھی اسی کو ثابت کرتا ہے مگر شبہ یقینا ہے کہ یہ عتبہ کا ہی لڑکا ہو جیسا کہ اس میں اس سے مشابہت بھی پائی جاتی ہے۔ پس بہتر ہے کہ تم اس سے پردہ کرو۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا نے اس ارشاد نبوی پر عمل کیا یہاں تک کہ وہ دنیا سے رخصت ہوئے۔ الولد للفراش کا مطلب الوالد لصاحب الفراش یعنی بچہ قانوناً اسی کا تسلیم کیا جائے گا جو اس بستر کا مالک ہے جس پر بچہ پیدا ہوا ہے یعنی جو اس کا شرعی و قانونی مالک یا خاوند ہے۔ بچہ اسی کا مانا جائے گا اگرچہ وہ کسی دوسرے کے نطفہ ہی سے کیوں نہ ہو اگر ایسا مقدمہ ثابت ہو جائے تو پھر زانی کے لیے محض سنگساری ہے۔