‌صحيح البخاري - حدیث 2052

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ تَفْسِيرِ المُشَبَّهَاتِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي حُسَيْنٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ جَاءَتْ فَزَعَمَتْ أَنَّهَا أَرْضَعَتْهُمَا فَذَكَرَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْرَضَ عَنْهُ وَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَيْفَ وَقَدْ قِيلَ وَقَدْ كَانَتْ تَحْتَهُ ابْنَةُ أَبِي إِهَابٍ التَّمِيمِيِّ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2052

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : ملتی جلتی چیزیں یعنی شبہ والے امور کیا ہیں؟ ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبر دی، انہیں عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی حسین نے خبر دی، ان سے عبداللہ بن ابی ملیکہ نے بیان کیا، ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے کہ ایک سیاہ فام خاتون آئیں اور دعویٰ کیا کہ انہوں نے ان دونوں ( عقبہ او ران کی بیوی ) کو دودھ پلایا ہے۔ عقبہ نے اس امر کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا او رمسکرا کر فرمایا۔ اب جب کہ ایک بات کہہ دی گئی تو تم دونوں ایک ساتھ کس طرح رہ سکتے ہو۔ ان کے نکاح میں ابواہاب تمیمی کی صاحب زادی تھیں۔
تشریح : ترمذی کی روایت میں ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ جھوٹی ہے، آپ نے منہ پھیر لیا، پھر آپ کے منہ کے سامنے آیا اور عرض کی یا رسول اللہ ! وہ جھوٹی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب تو اس عورت کو کیسے رکھ سکتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ یہ حدیث اوپر کتاب العلم میں گزر چکی ہے۔ یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس لیے لائے کہ گو اکثر علماءکے نزدیک رضاع ایک عورت کی شہادت سے ثابت نہیں ہوسکتا مگر شبہ تو ہو جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شبہ کی بنا پر عقبہ رضی اللہ عنہ کو یہ صلاح دی کہ اس عورت کو چھوڑ دے۔ معلوم ہوا کہ اگر شہادت کامل نہ ہو یا شہاد ت کے شرائط میں نقص ہو تو معاملہ مشتبہ رہتا ہے لیکن مشتبہ سے بچے رہنا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و وجہ الدلالۃ منہ قولہ کیف و قد قیل یشعر بان امرہ بفراق امراتہ انما کان لاجل قول المراۃ انہا رضعتہما فاحتمل ان یکون صحیحاً فیرتکب الحرام فامرہ بفراقہا احتیاطا علی قول الاکثر و قیل بل قبل شہادۃ المراۃ وحدہا علی ذلک یعنی ارشاد نبوی کیف قیل سے مقصد باب ثابت ہوتاہے جس سے ظاہرہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ رضی اللہ عنہ کو اس عورت سے جدائی کا حکم صادر فرمایا۔ دودھ پلانے کی دعوے دار عورت کے اس بیان پر کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ احتمال ہے کہ اس عورت کا بیان صحیح ہو اور عقبہ حرام کا مرتکب ہو۔ اس لیے احتیاطاً جدائی کا حکم دے دیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس عورت کی شہادت کو قبول فرما لیا، اور اس بارے میں ایک ہی شہادت کو کافی سمجھا۔ حضرت امام نے اس واقعہ سے بھی یہ ثابت فرمایا ہے کہ مشتبہ امور میں ان سے پرہیز ہی کا راستہ سلامتی اور احتیاط کا راستہ ہے۔ ترمذی کی روایت میں ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ جھوٹی ہے، آپ نے منہ پھیر لیا، پھر آپ کے منہ کے سامنے آیا اور عرض کی یا رسول اللہ ! وہ جھوٹی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اب تو اس عورت کو کیسے رکھ سکتا ہے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت نے تم دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ یہ حدیث اوپر کتاب العلم میں گزر چکی ہے۔ یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس لیے لائے کہ گو اکثر علماءکے نزدیک رضاع ایک عورت کی شہادت سے ثابت نہیں ہوسکتا مگر شبہ تو ہو جاتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے شبہ کی بنا پر عقبہ رضی اللہ عنہ کو یہ صلاح دی کہ اس عورت کو چھوڑ دے۔ معلوم ہوا کہ اگر شہادت کامل نہ ہو یا شہاد ت کے شرائط میں نقص ہو تو معاملہ مشتبہ رہتا ہے لیکن مشتبہ سے بچے رہنا تقویٰ اور پرہیزگاری ہے۔ ہمارے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تو رضاع صرف مرضعہ کی شہادت سے ثابت ہو جاتا ہے۔ ( وحیدی ) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و وجہ الدلالۃ منہ قولہ کیف و قد قیل یشعر بان امرہ بفراق امراتہ انما کان لاجل قول المراۃ انہا رضعتہما فاحتمل ان یکون صحیحاً فیرتکب الحرام فامرہ بفراقہا احتیاطا علی قول الاکثر و قیل بل قبل شہادۃ المراۃ وحدہا علی ذلک یعنی ارشاد نبوی کیف قیل سے مقصد باب ثابت ہوتاہے جس سے ظاہرہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عقبہ رضی اللہ عنہ کو اس عورت سے جدائی کا حکم صادر فرمایا۔ دودھ پلانے کی دعوے دار عورت کے اس بیان پر کہ میں نے ان دونوں کو دودھ پلایا ہے۔ احتمال ہے کہ اس عورت کا بیان صحیح ہو اور عقبہ حرام کا مرتکب ہو۔ اس لیے احتیاطاً جدائی کا حکم دے دیا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے اس عورت کی شہادت کو قبول فرما لیا، اور اس بارے میں ایک ہی شہادت کو کافی سمجھا۔ حضرت امام نے اس واقعہ سے بھی یہ ثابت فرمایا ہے کہ مشتبہ امور میں ان سے پرہیز ہی کا راستہ سلامتی اور احتیاط کا راستہ ہے۔