‌صحيح البخاري - حدیث 2051

كِتَابُ البُيُوعِ بَابٌ: الحَلاَلُ بَيِّنٌ، وَالحَرَامُ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ صحيح حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ ابْنِ عَوْنٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ و حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ حَدَّثَنَا أَبُو فَرْوَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ قَالَ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ و حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ أَبِي فَرْوَةَ سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ أَبِي فَرْوَةَ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا أُمُورٌ مُشْتَبِهَةٌ فَمَنْ تَرَكَ مَا شُبِّهَ عَلَيْهِ مِنْ الْإِثْمِ كَانَ لِمَا اسْتَبَانَ أَتْرَكَ وَمَنْ اجْتَرَأَ عَلَى مَا يَشُكُّ فِيهِ مِنْ الْإِثْمِ أَوْشَكَ أَنْ يُوَاقِعَ مَا اسْتَبَانَ وَالْمَعَاصِي حِمَى اللَّهِ مَنْ يَرْتَعْ حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2051

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب : حلال کھلا ہوا ہے او رحرام بھی کھلا ہوا ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ شک و شبہ والی چیزیں بھی ہیں ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم بن ابی عدی نے بیان کیا، ان سے عبداللہ بن عون نے، ان سے شعبی نے، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ( دوسری سند امام بخاری نے کہا ) اور ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، ان سے شعبی نے، کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا، اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( تیسری سند ) او رہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے ابوفروہ نے، انہوں نے شعبی سے سنا، انہوں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے سنا او رانہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( چوتھی سند ) او رہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو سفیان ثوری نے خبردی، انہیں ابوفروہ نے، انہیں شعبی نے اور ان سے سے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بھی کھلا ہوا ہے اورحرام بھی ظاہر ہے لیکن ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ پس جو شخص ان چیزوں کو چھوڑے جن کے گناہ ہونے یا نہ ہونے میں شبہ ہے وہ ان چیزوں کو تو ضروری ہی چھوڑ دے گا جن کا گناہ ہونا ظاہر ہے لیکن جو شخص شبہ کی چیزوں کے کرنے کی جرات کرے گا تو قریب ہے کہ وہ ان گناہوں میں مبتلا ہو جائے جو بالکل واضح طو رپر گناہ ہیں ( لوگو یاد رکھو ) گناہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ ہے جو ( جانور بھی ) چراگاہ کے ارد گرد چرے گا اس کا چراگاہ کے اندر چلا جانا غیر ممکن نہیں۔
تشریح : عہد جاہلیت میں عربی شیوخ و امراءاپنی چراگاہیں مخصوص رکھا کرتے تھے ان میں کوئی غیر آدمی اپنے جانوروں کو نہیں داخل کرسکتا تھا۔ اس لیے غریب لوگ ان چراگاہوں کے قریب بھی نہ جاتے کہ مبادا ان کے جانور اس میں داخل ہو جائیں اور وہ سخت ترین سزاؤں کے مستحق گردانے جائیں۔ حدود اللہ کو بھی ایسی ہی چراگاہوں سے تشبیہ دی گئی اور قرآن مجید کی متعدد آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ حدود اللہ کے قریب بھی نہ جاؤ کہ کہیں ان کے توڑنے کے مرتکب ہو کر عنداللہ مجرم ٹھہرو۔ حدیث ہذا میں معاصی کو اللہ کی چراگاہ بتلایا گیا ہے۔ جو معاصی سے دور رہنے کے لیے ایک انتہائی تنبیہ ہے۔ ان سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حلال اورحرام کے درمیان جو امور مشتبہات ہیں ان سے بھی پرہیز کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ ان کے ارتکاب سے فعل حرام ہی کا ارتکاب ہو جائے، اس لیے جو مشتبہات سے بچ گیا وہ سلامت رہا۔ حرمات اللہ کی چراگاہوں سے تشبیہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے کہ جس طرح امراءو زمیندار لوگوں کی مخصوص چراگاہوں میں داخل ہوجانے والے اور اپنے جانوروں کو وہاں چگانے والوں کو انتہائی سنگین سزا دی جاسکتی ہے۔ ایسے ہی جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے اور اللہ کی چراگاہ یعنی امور حرام میں واقع ہوجاتے ہیں۔ وہ آخرت میں سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔ اور افعال مشتبہات سے پرہیز بھی اسی بنا پر ضروری ہے کہ مبادا کوئی شخص امو رحرام کا مرتکب ہو کر عذاب الیم کا مستحق نہ ہو جائے۔ عہد جاہلیت میں عربی شیوخ و امراءاپنی چراگاہیں مخصوص رکھا کرتے تھے ان میں کوئی غیر آدمی اپنے جانوروں کو نہیں داخل کرسکتا تھا۔ اس لیے غریب لوگ ان چراگاہوں کے قریب بھی نہ جاتے کہ مبادا ان کے جانور اس میں داخل ہو جائیں اور وہ سخت ترین سزاؤں کے مستحق گردانے جائیں۔ حدود اللہ کو بھی ایسی ہی چراگاہوں سے تشبیہ دی گئی اور قرآن مجید کی متعدد آیات میں تاکید کی گئی ہے کہ حدود اللہ کے قریب بھی نہ جاؤ کہ کہیں ان کے توڑنے کے مرتکب ہو کر عنداللہ مجرم ٹھہرو۔ حدیث ہذا میں معاصی کو اللہ کی چراگاہ بتلایا گیا ہے۔ جو معاصی سے دور رہنے کے لیے ایک انتہائی تنبیہ ہے۔ ان سے بچنے کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ حلال اورحرام کے درمیان جو امور مشتبہات ہیں ان سے بھی پرہیز کیا جائے، ایسا نہ ہو کہ ان کے ارتکاب سے فعل حرام ہی کا ارتکاب ہو جائے، اس لیے جو مشتبہات سے بچ گیا وہ سلامت رہا۔ حرمات اللہ کی چراگاہوں سے تشبیہ زجر وتوبیخ کے لیے ہے کہ جس طرح امراءو زمیندار لوگوں کی مخصوص چراگاہوں میں داخل ہوجانے والے اور اپنے جانوروں کو وہاں چگانے والوں کو انتہائی سنگین سزا دی جاسکتی ہے۔ ایسے ہی جو لوگ حدود اللہ کو توڑنے اور اللہ کی چراگاہ یعنی امور حرام میں واقع ہوجاتے ہیں۔ وہ آخرت میں سخت ترین سزا کے مستحق ہوں گے۔ اور افعال مشتبہات سے پرہیز بھی اسی بنا پر ضروری ہے کہ مبادا کوئی شخص امو رحرام کا مرتکب ہو کر عذاب الیم کا مستحق نہ ہو جائے۔