‌صحيح البخاري - حدیث 2050

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَمْرٍو عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ كَانَتْ عُكَاظٌ وَمَجَنَّةُ وَذُو الْمَجَازِ أَسْوَاقًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَلَمَّا كَانَ الْإِسْلَامُ فَكَأَنَّهُمْ تَأَثَّمُوا فِيهِ فَنَزَلَتْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِنْ رَبِّكُمْ فِي مَوَاسِمِ الْحَجِّ قَرَأَهَا ابْنُ عَبَّاسٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2050

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق احادیث کہ ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ عکاظ مجنہ، اور ذو المجاز عہد جاہلیت کے بازار تھے۔ جب اسلام آیا تو ایسا ہوا کہ مسلمان لوگ ( خرید و فروخت کے لیے ان بازاروں میں جانا ) گناہ سمجھنے لگے۔ اس لیے یہ آیت نازل ہوئی ” تمہارے لیے اس میں کوئی حرج نہیں اگر تم اپنے رب کے فضل ( یعنی رزق حلال ) کی تلاش کرو حج کے موسم میں “ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرات ہے۔
تشریح : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرات میں آیت کریمہ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم سے آگے فی موسم الحج کے لفظ زائد ہیں۔ مگر عام قراتوں میں یہ زائد لفظ نہیں ہیں یا شاید یہ منسوخ ہو گئے ہوں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو۔ حدیث میں زمانہ جاہلیت کی منڈیوں کا ذکرہے۔ اسلام نے اپنے عہد میں تجارتی منڈیوں کو ترقی دی، اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مگر خرافات اور مکر و فریب والوں کے لیے بازار سے بدتر کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی قرات میں آیت کریمہ لیس علیکم جناح ان تبتغوا فضلا من ربکم سے آگے فی موسم الحج کے لفظ زائد ہیں۔ مگر عام قراتوں میں یہ زائد لفظ نہیں ہیں یا شاید یہ منسوخ ہو گئے ہوں اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو نسخ کا علم نہ ہو سکا ہو۔ حدیث میں زمانہ جاہلیت کی منڈیوں کا ذکرہے۔ اسلام نے اپنے عہد میں تجارتی منڈیوں کو ترقی دی، اور ہر طرح سے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ مگر خرافات اور مکر و فریب والوں کے لیے بازار سے بدتر کوئی جگہ بھی نہیں ہے۔