‌صحيح البخاري - حدیث 2049

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَدِمَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَوْفٍ الْمَدِينَةَ فَآخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُ وَبَيْنَ سَعْدِ بْنِ الرَّبِيعِ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ سَعْدٌ ذَا غِنًى فَقَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ أُقَاسِمُكَ مَالِي نِصْفَيْنِ وَأُزَوِّجُكَ قَالَ بَارَكَ اللَّهُ لَكَ فِي أَهْلِكَ وَمَالِكَ دُلُّونِي عَلَى السُّوقِ فَمَا رَجَعَ حَتَّى اسْتَفْضَلَ أَقِطًا وَسَمْنًا فَأَتَى بِهِ أَهْلَ مَنْزِلِهِ فَمَكَثْنَا يَسِيرًا أَوْ مَا شَاءَ اللَّهُ فَجَاءَ وَعَلَيْهِ وَضَرٌ مِنْ صُفْرَةٍ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْيَمْ قَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ تَزَوَّجْتُ امْرَأَةً مِنْ الْأَنْصَارِ قَالَ مَا سُقْتَ إِلَيْهَا قَالَ نَوَاةً مِنْ ذَهَبٍ أَوْ وَزْنَ نَوَاةٍ مِنْ ذَهَبٍ قَالَ أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2049

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق احادیث کہ ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، ان سے زہیر نے بیان کیا، ان سے حمید نے بیان کیا او ران سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ مدینہ آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بھائی چارہ سعد بن ربیع انصاری رضی اللہ عنہ سے کرا دیا۔ سعد رضی اللہ عنہ مالدار آدمی تھے۔ انہوں نے عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے کہا میں اور آپ میرے مال سے آدھا آدھا لے لیں۔ اور میں ( اپنی ایک بیوی سے ) آپ کی شادی کرادوں۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے اس کے جواب میں کہا اللہ تعالیٰ آپ کے اہل اور آپ کے مال میں برکت عطا فرمائے، مجھے تو آپ بازار کا راستہ بتادیجئے، پھر وہ بازار سے اس وقت تک واپس نہ ہوئے جب تک نفع میں کافی پنیر اور گھی نہ بچا لیا۔ اب وہ اپنے گھر والوں کے پاس آئے کچھ دن گزرے ہوں گے یا اللہ نے جتنا چاہا۔ اس کے بعد وہ آئےے کہ ان پر زردی کا نشان تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا یہ زردی کیسی ہے؟ عرض کیا، یا رسول اللہ ! میں نے ایک انصاری عورت سے شادی کرلی ہے۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ انہیں مہر میں کیا دیا ہے؟ عرض کیا ” سونے کی ایک گٹھلی “ یا ( یہ کہا کہ ) ” ایک گٹھلی برابر سونا “ آپ نے فرمایا کہ اچھا اب ولیمہ کر، اگرچہ ایک بکری ہی کا ہو۔
تشریح : حدث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہاں اس حدیث کے لانے سے یہ ہے کہ عہد نبوی میں مدینہ منورہ میں اہل اسلام تجارت کیا کرتے تھے۔ اور ان کا بہترین پیشہ تجارت ہی تھا۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو قریشی ہیں ہجرت فرما کر جب مدینہ آئے تو انہوں نے غور و فکر کے بعد اپنے قدیمی پیشہ تجارت ہی کو یہاں بھی اپنایا اور اپنے اسلامی بھائی سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے اپنی آدھی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کی پیش کش کی تھی بازار کا راستہ لیا۔ اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر آپ نے تیل اور گھی کا کاروبار شروع کیا، اللہ نے آپ کو تھوڑی ہی مدت میں ایسی کشادگی عطا فرمائی کہ آپ نے ایک انصاری عورت سے اپنا عقد بھی کر لیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میںسے ہیں۔ یہ شروع دور میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت سے داخل اسلام ہوئے اور دو مربتہ حبش کی طرف ہجرت بھی کی۔ تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ طویل القامت گورے رنگ والے تھے۔ غزوہ احد میں ان کے بدن پر بیس سے زائد زخم لگے تھے۔ جن کی وجہ سے پیروں میں لنگ پیدا ہو گئی تھی۔ یہ مدینہ میں بہت ہی بڑے مالدار مسلمان تھے اور رئیس التجار کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی سخاوت کے بھی کتنے ہی واقعات مذکو رہیں۔ 72 سال کی عمر میں32ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ انہوں نے مہر میں اپنی بیوی کو نواۃ من الذہب یعنی سونے کی ایک گٹھلی دی جس کا وزن 5 درہم سے زائد بھی ممکن ہے۔ اس حدیث سے ولیمہ کرنے کی تاکید بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ میں بکرے یا بکری کا ذبیحہ بہتر ہے۔ زرد رنگ شاید کسی عطر کا ہو یا کسی ایسی مخلوط چیز کا جس میں کوئی زرد قسم کی چیز بھی شامل ہو اور آپ نے اس سے غسل وغیرہ کیا ہو۔ حدث ہذا بہت سے فوائد پر مشتمل ہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہاں اس حدیث کے لانے سے یہ ہے کہ عہد نبوی میں مدینہ منورہ میں اہل اسلام تجارت کیا کرتے تھے۔ اور ان کا بہترین پیشہ تجارت ہی تھا۔ چنانچہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ جو قریشی ہیں ہجرت فرما کر جب مدینہ آئے تو انہوں نے غور و فکر کے بعد اپنے قدیمی پیشہ تجارت ہی کو یہاں بھی اپنایا اور اپنے اسلامی بھائی سعد رضی اللہ عنہ بن ربیع کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جنہوں نے اپنی آدھی جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ کی پیش کش کی تھی بازار کا راستہ لیا۔ اور وہاں کے حالات کا جائزہ لے کر آپ نے تیل اور گھی کا کاروبار شروع کیا، اللہ نے آپ کو تھوڑی ہی مدت میں ایسی کشادگی عطا فرمائی کہ آپ نے ایک انصاری عورت سے اپنا عقد بھی کر لیا۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ عشرہ مبشرہ میںسے ہیں۔ یہ شروع دور میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحبت سے داخل اسلام ہوئے اور دو مربتہ حبش کی طرف ہجرت بھی کی۔ تمام غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ طویل القامت گورے رنگ والے تھے۔ غزوہ احد میں ان کے بدن پر بیس سے زائد زخم لگے تھے۔ جن کی وجہ سے پیروں میں لنگ پیدا ہو گئی تھی۔ یہ مدینہ میں بہت ہی بڑے مالدار مسلمان تھے اور رئیس التجار کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی سخاوت کے بھی کتنے ہی واقعات مذکو رہیں۔ 72 سال کی عمر میں32ھ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔ انہوں نے مہر میں اپنی بیوی کو نواۃ من الذہب یعنی سونے کی ایک گٹھلی دی جس کا وزن 5 درہم سے زائد بھی ممکن ہے۔ اس حدیث سے ولیمہ کرنے کی تاکید بھی ثابت ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ میں بکرے یا بکری کا ذبیحہ بہتر ہے۔ زرد رنگ شاید کسی عطر کا ہو یا کسی ایسی مخلوط چیز کا جس میں کوئی زرد قسم کی چیز بھی شامل ہو اور آپ نے اس سے غسل وغیرہ کیا ہو۔