‌صحيح البخاري - حدیث 2047

كِتَابُ البُيُوعِ بَابُ مَا جَاءَ فِي قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى صحيح حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، وَأَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: إِنَّكُمْ تَقُولُونَ: إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ يُكْثِرُ الحَدِيثَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتَقُولُونَ مَا بَالُ المُهَاجِرِينَ، وَالأَنْصَارِ لاَ يُحَدِّثُونَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ المُهَاجِرِينَ كَانَ يَشْغَلُهُمْ صَفْقٌ بِالأَسْوَاقِ، وَكُنْتُ أَلْزَمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مِلْءِ بَطْنِي، فَأَشْهَدُ إِذَا غَابُوا، وَأَحْفَظُ إِذَا نَسُوا، وَكَانَ يَشْغَلُ إِخْوَتِي مِنَ الأَنْصَارِ عَمَلُ أَمْوَالِهِمْ، وَكُنْتُ امْرَأً مِسْكِينًا مِنْ مَسَاكِينِ الصُّفَّةِ، أَعِي حِينَ يَنْسَوْنَ، وَقَدْ قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثٍ يُحَدِّثُهُ: «إِنَّهُ لَنْ يَبْسُطَ أَحَدٌ ثَوْبَهُ حَتَّى أَقْضِيَ مَقَالَتِي هَذِهِ، ثُمَّ يَجْمَعَ إِلَيْهِ ثَوْبَهُ، إِلَّا وَعَى مَا أَقُولُ»، فَبَسَطْتُ نَمِرَةً عَلَيَّ، حَتَّى إِذَا قَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَقَالَتَهُ جَمَعْتُهَا إِلَى صَدْرِي، فَمَا نَسِيتُ مِنْ مَقَالَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ مِنْ شَيْءٍ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2047

کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان باب: اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے متعلق احادیث کہ ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، ان سے شعیب نے بیان کیا، ان سے زہری نے، کہا کہ مجھے سعید بن مسیب اور ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے خبر دی کہ ابوہریر رضی اللہ عنہ نے کہا، تم لوگ کہتے ہو کہ ابوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) تو رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث بہت زیادہ بیان کرتا ہے، او ریہ بھی کہتے ہو کہ مہاجرین و انصار ابوہریرہ ( رضی اللہ عنہ ) کی طرح کیوں حدیث نہیں بیان کرتے؟ اصل وجہ یہ ہے کہ میرے بھائی مہاجرین بازار کی خرید و فروخت میں مشغول رہا کرتے تھے۔ اور میں اپنا پیٹ بھرنے کے بعد پھر برابر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا، اس لیے جب یہ بھائی غیر حاضر ہوتے تو میں اس وقت بھی حاضر رہتا اور میں ( وہ باتیں آپ سے سن کر ) یاد کر لیتا جسے ان حضرات کو ( اپنے کاروبار کی مشغولیت کی وجہ سے یا تو سننے کا موقعہ نہیں ملتا تھا یا ) وہ بھول جایا کرتے تھے۔ اسی طرح میرے بھائی انصار اپنے اموال ( کھیتوں اور باغوں ) میں مشغول رہتے، لیکن میں صفہ میں مقیم مسکینوں میں سے ایک مسکین آدمی تھا۔ جب یہ حضرات انصار بھولتے تو میں اسے یاد رکھتا۔ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ جو کوئی اپنا کپڑا پھیلائے اور اس وقت تک پھیلائے رکھے جب تک اپنی یہ گفتگو نہ پوری کرلوں، پھر ( جب میری گفتگو پوری ہوجائے تو ) اس کپڑے کو سمیٹ لے تو وہ میری باتوں کو ( اپنے دل و دماغ میں ہمیشہ ) یاد رکھے گا، چنانچہ میں نے اپنا کمبل اپنے سامنے پھیلا دیا، پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ ولم نے اپنا مقالہ مبارک ختم فرمایا، تو میں نے اسے سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کے بعد پھر کبھی میں آپ کی کوئی حدیث نہیں بھولا۔
تشریح : قریش کا پیشہ تجارت تھا، اور اہل مدینہ کاشتکار تھے۔ جب مہاجرین مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے اپنا آبائی پیشہ تجارت ہی زیادہ پسند فرمایا اور کسب معاش کے سلسلہ میں انصار اور مہاجرین سب ہی اپنے دھندوں میں مشغول رہا کرتے تھے مگر اصحاب صفہ خالص تعلیم دین ہی کے لیے وقف تھے۔ جن کا کوئی دنیاوی مشغلہ نہ تھا۔ ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شوقین بلکہ علوم قرآن وحدیث پر اس درجہ فدا کہ اکثر اوقات اپنی شکم پری سے بھی غافل ہوجاتے اور فاقہ در فاقہ کرتے ہوئے جب غشی طاری ہونے لگتی تب ان کو بھوک یاد آتی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں یہ بتلانے کے لیے لائے ہیں کہ تجارت بیع و شراء اور کھیتی باڑی بلکہ سب دنیاوی کاروبار ضروریات زندگی سے ہیں۔ جن کے لیے اسلام نے بہترین اصول اور ہدایات پیش کی ہیں اور اس سلسلہ میں ہر ممکن ترقی کے لیے رغبت دلائی ہے جس کا زندہ ثبوت وہ انصار اور مہاجرین ہیں جنہوں نے عہد رسالت میں تجارت اور زراعت میں قابل رشک ترقی حاصل کی اور تجارت و کھیتی و باغبانی میں بھی وہ دنیا کے لیے ایک مثال بن گئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ محض دینی طالب تم تھے اور دنیاوی کاروبار سے ان کو کچھ لگاؤ نہ تھا اس لیے یہ ہزارہا حدیث نبوی کے حافظ ہوئے۔ اس حدیث سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ بھی ثابت ہوا کہ حسب ہدایات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر دل پذیر کے وقت اپنا کمبل پھیلا دیا اور بعد میں وہ کمبل سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا، جس سے ان کا سینہ روشن ہو گیا اور بعد میں وہ حفاظ حدیث میں سب سے سبقت لے گئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ آمین قریش کا پیشہ تجارت تھا، اور اہل مدینہ کاشتکار تھے۔ جب مہاجرین مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے اپنا آبائی پیشہ تجارت ہی زیادہ پسند فرمایا اور کسب معاش کے سلسلہ میں انصار اور مہاجرین سب ہی اپنے دھندوں میں مشغول رہا کرتے تھے مگر اصحاب صفہ خالص تعلیم دین ہی کے لیے وقف تھے۔ جن کا کوئی دنیاوی مشغلہ نہ تھا۔ ان میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ شوقین بلکہ علوم قرآن وحدیث پر اس درجہ فدا کہ اکثر اوقات اپنی شکم پری سے بھی غافل ہوجاتے اور فاقہ در فاقہ کرتے ہوئے جب غشی طاری ہونے لگتی تب ان کو بھوک یاد آتی۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کو یہاں یہ بتلانے کے لیے لائے ہیں کہ تجارت بیع و شراء اور کھیتی باڑی بلکہ سب دنیاوی کاروبار ضروریات زندگی سے ہیں۔ جن کے لیے اسلام نے بہترین اصول اور ہدایات پیش کی ہیں اور اس سلسلہ میں ہر ممکن ترقی کے لیے رغبت دلائی ہے جس کا زندہ ثبوت وہ انصار اور مہاجرین ہیں جنہوں نے عہد رسالت میں تجارت اور زراعت میں قابل رشک ترقی حاصل کی اور تجارت و کھیتی و باغبانی میں بھی وہ دنیا کے لیے ایک مثال بن گئے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ محض دینی طالب تم تھے اور دنیاوی کاروبار سے ان کو کچھ لگاؤ نہ تھا اس لیے یہ ہزارہا حدیث نبوی کے حافظ ہوئے۔ اس حدیث سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک معجزہ بھی ثابت ہوا کہ حسب ہدایات حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر دل پذیر کے وقت اپنا کمبل پھیلا دیا اور بعد میں وہ کمبل سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیا، جس سے ان کا سینہ روشن ہو گیا اور بعد میں وہ حفاظ حدیث میں سب سے سبقت لے گئے۔ رضی اللہ عنہ و ارضاہ آمین