‌صحيح البخاري - حدیث 2038

كِتَابُ الِاعْتِكَافِ بَابُ زِيَارَةِ المَرْأَةِ زَوْجَهَا فِي اعْتِكَافِهِ صحيح حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ قَالَ حَدَّثَنِي اللَّيْثُ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ خَالِدٍ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ صَفِيَّةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَخْبَرَتْهُ ح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ يُوسُفَ أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ وَعِنْدَهُ أَزْوَاجُهُ فَرُحْنَ فَقَالَ لِصَفِيَّةَ بِنْتِ حُيَيٍّ لَا تَعْجَلِي حَتَّى أَنْصَرِفَ مَعَكِ وَكَانَ بَيْتُهَا فِي دَارِ أُسَامَةَ فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا فَلَقِيَهُ رَجُلَانِ مِنْ الْأَنْصَارِ فَنَظَرَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ أَجَازَا وَقَالَ لَهُمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَالَيَا إِنَّهَا صَفِيَّةُ بِنْتُ حُيَيٍّ قَالَا سُبْحَانَ اللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَجْرِي مِنْ الْإِنْسَانِ مَجْرَى الدَّمِ وَإِنِّي خَشِيتُ أَنْ يُلْقِيَ فِي أَنْفُسِكُمَا شَيْئًا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2038

کتاب: اعتکاف کے مسائل کا بیان باب : عورت اعتکاف کی حالت میں اپنے خاوند سے ملاقات کر سکتی ہے ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمن بن خالد نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے امام زین العابدین علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک بیوی حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی ( دوسری سند ) اور امام بخاری نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انہیں معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں علی بن حسین رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں ( اعتکاف میں ) تھے آپ کے پاس ازواج مطہرات بیٹھی تھیں۔ جب وہ چلنے لگیں تو آپ نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جلدی نہ کر، میں تمہیں چھوڑنے چلتا ہوں۔ ان کا حجرہ دار اسامہ رضی اللہ عنہ میں تھا، چنانچہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ نکلے تو دو انصاری صحابیوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات ہوئی۔ ان دونوں حضرات نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا او رجلدی سے آگے بڑھ جانا چاہا۔ لیکن آپ نے فرمایا ٹھہرو ! ادھر سنو ! یہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا ہیں ( جو میری بیوی ہیں ) ان حضرات نے عرض کی، سبحان اللہ ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا کہ شیطان ( انسان کے جسم میں ) خون کی طرح دوڑتا ہے اورمجھے خطرہ یہ ہوا کہ کہیں تمہارے دلوں میں بھی کوئی بات نہ ڈال دے۔
تشریح : یہ حدیث طرق مختلفہ کے ساتھ کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے بہت سے مسائل کے لیے استنباط فرمایا ہے۔ علامہ ابن حجر اس کے ذیل میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔ و فی الحدیث من الفوائد جواز اشتغال المعتکف بالامور المباحۃ من تشییع زائرہ و القیام معہ و الحدیث مع غیرہ و اباحۃ خلوۃ المعتکف بالزوجۃ و زیارۃ المراۃ المعتکف و بیان شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ و ارشادہم الی ما یدفع عنہم الاثم و فیہ التحرز من التعرض لسوءالظن و الاحتفاظ من کید الشیطان و الاعتذار و قال ابن دقیق العیدو ہذا متاکد فی حق العلماءو من یقتدی بہ فلایجوز لہم ان یفعلوا فعلاً یوجب سوءالظن بہم و ان کان لہم فیہ مخلص لان ذالک سبب الی ابطال الانتفاع بعلمہم و من ثم قال بعض العلماءینبغی للحاکم ان یبین للمحکوم علیہ وجہ الحکم اذا کان حافیا نفیا للتہمۃ و من ہہنا یظہر خطاءمن یتظاہر بمظاہر السوءو یعتذر بانہ یجرب بذالک علی نفسہ و قد عظم البلاءبہذا الصنف و اللہ اعلم و فیہ اضافۃ بیوت ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیہن و فیہ جواز خروج المراۃ لیلا وفیہ قول سبحان اللہ عند العجب الخ ( فتح الباری ) مختصر مطلب یہ کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر ان کو رخصت کرسکتا ہے اور غیروں کے ساتھ بات بھی کرسکتا ہے۔ اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے یعنی اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آسکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقت نبوی کا بھی اثبات ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے دفع کرنے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ ابن دقیق العید نے کہا کہ علماءکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کرسکیں، اگرچہ اس کام میں ان کے اخلاص بھی ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم کا انتفاع ختم ہوجانے کا احتمال ہے۔ اسی لیے بعض علماءنے کہا کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اس نے فیصلہ دیا ہے اس کی پوری وجوہ اس کے سامنے بیان کردے تاکہ وہ کوئی غلط تہمت حاکم پر نہ لگا سکے۔ اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برامظاہرہ نہ کرے۔ ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ یہ حدیث طرق مختلفہ کے ساتھ کئی جگہ گزر چکی ہے اور حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے بہت سے مسائل کے لیے استنباط فرمایا ہے۔ علامہ ابن حجر اس کے ذیل میں ایک جگہ لکھتے ہیں۔ و فی الحدیث من الفوائد جواز اشتغال المعتکف بالامور المباحۃ من تشییع زائرہ و القیام معہ و الحدیث مع غیرہ و اباحۃ خلوۃ المعتکف بالزوجۃ و زیارۃ المراۃ المعتکف و بیان شفقتہ صلی اللہ علیہ وسلم علی امتہ و ارشادہم الی ما یدفع عنہم الاثم و فیہ التحرز من التعرض لسوءالظن و الاحتفاظ من کید الشیطان و الاعتذار و قال ابن دقیق العیدو ہذا متاکد فی حق العلماءو من یقتدی بہ فلایجوز لہم ان یفعلوا فعلاً یوجب سوءالظن بہم و ان کان لہم فیہ مخلص لان ذالک سبب الی ابطال الانتفاع بعلمہم و من ثم قال بعض العلماءینبغی للحاکم ان یبین للمحکوم علیہ وجہ الحکم اذا کان حافیا نفیا للتہمۃ و من ہہنا یظہر خطاءمن یتظاہر بمظاہر السوءو یعتذر بانہ یجرب بذالک علی نفسہ و قد عظم البلاءبہذا الصنف و اللہ اعلم و فیہ اضافۃ بیوت ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیہن و فیہ جواز خروج المراۃ لیلا وفیہ قول سبحان اللہ عند العجب الخ ( فتح الباری ) مختصر مطلب یہ کہ اس حدیث سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں مثلاً یہ کہ معتکف کے لیے مباح ہے کہ وہ اپنے ملنے والوں کو کھڑا ہو کر ان کو رخصت کرسکتا ہے اور غیروں کے ساتھ بات بھی کرسکتا ہے۔ اور اس کے لیے اپنی بیوی کے ساتھ خلوت بھی مباح ہے یعنی اس سے تنہائی میں صرف ضروری اور مناسب بات چیت کرنا، اور اعتکاف کرنے والے کی عورت بھی اس سے ملنے آسکتی ہے اور اس حدیث سے امت کے لیے شفقت نبوی کا بھی اثبات ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے ارشاد پر بھی دلیل ہے جو کہ امت سے گناہوں کے دفع کرنے سے متعلق ہے اور اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ بدگمانی اور شیطانی مکروں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا بھی بے حد ضروری ہے۔ ابن دقیق العید نے کہا کہ علماءکے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ان کے حق میں لوگ بدگمانی پیدا کرسکیں، اگرچہ اس کام میں ان کے اخلاص بھی ہو، مگر بدگمانی پیدا ہونے کی صورت میں ان کے علوم کا انتفاع ختم ہوجانے کا احتمال ہے۔ اسی لیے بعض علماءنے کہا کہ حاکم کے لیے ضروری ہے کہ مدعی علیہ پر جو اس نے فیصلہ دیا ہے اس کی پوری وجوہ اس کے سامنے بیان کردے تاکہ وہ کوئی غلط تہمت حاکم پر نہ لگا سکے۔ اور اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ کوئی شخص بطور تجربہ بھی کوئی برامظاہرہ نہ کرے۔ ایسی بلائیں آج کل عام ہو رہی ہیں اور اس حدیث میں بیوت ازواج النبی کی اضافت کا بھی جواز ہے اور رات میں عورتوں کا گھروں سے باہر نکلنے کا بھی جواز ثابت ہے اور تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنے کا بھی ثبوت ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔