كِتَابُ الوُضُوءِ بَابُ المَسْحِ عَلَى الخُفَّيْنِ صحيح حَدَّثَنَا أَصْبَغُ بْنُ الفَرَجِ المِصْرِيُّ، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ الحَارِثِ، حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ «النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ مَسَحَ عَلَى الخُفَّيْنِ» وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ سَأَلَ عُمَرَ عَنْ ذَلِكَ فَقَالَ: نَعَمْ، إِذَا حَدَّثَكَ شَيْئًا سَعْدٌ، عَنِ النَّبِيّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلاَ تَسْأَلْ عَنْهُ غَيْرَهُ. وَقَالَ مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ: أَخْبَرَنِي أَبُو النَّضْرِ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ، أَخْبَرَهُ أَنَّ سَعْدًا حَدَّثَهُ، فَقَالَ عُمَرُ لِعَبْدِ اللَّهِ: نَحْوَهُ
کتاب: وضو کے بیان میں
باب: موزوں پر مسح کرنا
ہم سے اصبغ ابن الفرج نے بیان کیا، وہ ابن وہب سے کرتے ہیں، کہا مجھ سے عمرو نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابوالنضر نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن کے واسطے سے نقل کیا، وہ عبدالرحمن بن عمر سے، وہ سعد بن ابی وقاص سے، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد ماجد عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا ( سچ ہے اور یاد رکھو ) جب تم سے سعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان فرمائیں۔ تو اس کے متعلق ان کے سوا ( کسی ) دوسرے آدمی سے مت پوچھو اور موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں کہ مجھے ابوالنضر نے بتلایا، انھیں ابوسلمہ نے خبر دی کہ سعد بن ابی وقاص نے ان سے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ) حدیث بیان کی۔ پھر عمر رضی اللہ عنہ نے ( اپنے بیٹے ) عبداللہ سے ایسا کہا۔
تشریح :
حضرت عبداللہ بن عمر جب حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس کوفہ آئے، اور انھیں موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا حوالہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسح کیا کرتے تھے، انھوں نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا اور حضرت سعد کا حوالہ دیاتو انھوں نے فرمایا کہ ہاں سعد کی روایت واقعی قابل اعتماد ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث نقل کرتے ہیں وہ قطعاً صحیح ہوتی ہے۔ کسی اور سے تصدیق کرانے کی ضرورت نہیں۔
موزوں پر مسح کرنا تقریباً سترصحابہ کرام سے مروی ہے اور یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت سے یہ منسوخ ہوچکا ہے۔ کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت جو آگے آرہی ہے۔ وہ غزوئہ تبوک کے موقع پر بیان کی گئی ہے، سورۃ مائدہ اس سے پہلے اتر چکی تھی اور دوسرے راوی جریر بن عبداللہ بھی سورۃ مائدہ اترنے کے بعد اسلام لائے بہرحال تمام صحابہ کے اتفاق سے موزوں کا مسح ثابت ہے اور اس کا انکار کرنے والا اہل سنت سے خارج ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمر جب حضرت سعد بن ابی وقاص کے پاس کوفہ آئے، اور انھیں موزوں پر مسح کرتے دیکھا تو اس کی وجہ پوچھی، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا حوالہ دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی مسح کیا کرتے تھے، انھوں نے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ مسئلہ پوچھا اور حضرت سعد کا حوالہ دیاتو انھوں نے فرمایا کہ ہاں سعد کی روایت واقعی قابل اعتماد ہے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو حدیث نقل کرتے ہیں وہ قطعاً صحیح ہوتی ہے۔ کسی اور سے تصدیق کرانے کی ضرورت نہیں۔
موزوں پر مسح کرنا تقریباً سترصحابہ کرام سے مروی ہے اور یہ خیال قطعاً غلط ہے کہ سورۃ مائدہ کی آیت سے یہ منسوخ ہوچکا ہے۔ کیونکہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کی روایت جو آگے آرہی ہے۔ وہ غزوئہ تبوک کے موقع پر بیان کی گئی ہے، سورۃ مائدہ اس سے پہلے اتر چکی تھی اور دوسرے راوی جریر بن عبداللہ بھی سورۃ مائدہ اترنے کے بعد اسلام لائے بہرحال تمام صحابہ کے اتفاق سے موزوں کا مسح ثابت ہے اور اس کا انکار کرنے والا اہل سنت سے خارج ہے۔