‌صحيح البخاري - حدیث 2013

كِتَابُ صَلاَةِ التَّرَاوِيحِ بَابُ فَضْلِ مَنْ قَامَ رَمَضَانَ صحيح حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ قَالَ حَدَّثَنِي مَالِكٌ عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا كَانَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلَى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ قَالَ يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 2013

کتاب: نماز تراویح پڑھنے کا بیان باب : رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے بیان کیا، ان سے سعید مقبری نے، ان سے ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہ انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( تراویح یا تہجد کی نماز ) رمضان میں کتنی رکعتیں پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے بتلایا کہ رمضان ہو یا کوئی اور مہینہ آپ گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلی چار رکعت پڑھتے، تم ان کے حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، پھر چار رکعت پڑھتے، ان کے بھی حسن و خوبی اور طول کا حال نہ پوچھو، آخر میں تین رکعت ( وتر ) پڑھتے تھے۔ میں نے ایک بار پوچھا، یا رسول اللہ ! کیا اپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عائشہ ! میری آنکھیںسوتی ہیں لیکن میرا دل نہیں سوتا۔
تشریح : خلاصہ مطلب یہ ہے کہ تراویح ترویحۃ کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح کہا گیا، اس لیے کہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔ علامہ محمدبن نصر نے قیام اللیل میں دوباب منعقد کئے ہیں۔ ایک ان کے متعلق جو اس راحت کو مستحب گردانتے ہیں۔ اورایک ان کے متعلق جو اس راحت کو اچھا نہیں جانتے۔ اور اس بارے میں یحییٰ بن بکیر نے لیث سے نقل کیا ہے کہ وہ اتنی اتنی رکعات کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیرآرام کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اسے نمازتراویح سے موسوم کیا گیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس بارے میں پہلے اس نماز کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت لائے، پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت کے ساتھ حضرت ابن شہاب کی تشریح لائے جس میں اس نماز کا باجماعت ادا کیا جانا اوراس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اقدام مذکور ہے۔ پھر حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث سے یہ ثابت فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس نماز کو تین راتوں تک باجماعت ادا فرماکر اس امت کے لیے مسنون قرار دیا۔ اس کے بعد اس کی تعداد کے بارے میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ نقل فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیررمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعتوں کی تعداد میں پڑھا کرتے تھے۔ رمضان میں یہی نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیررمضان میں تہجد کے نام سے، اور اس میں آٹھ رکعت سنت اور تین وتر۔ اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوا کرتی تھیں۔ حضرت حائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ ایسی قطعی وضاحت ہے جس کی کوئی بھی تاویل یاتردید نہیں کی جاسکتی، اسی کی بناپر جماعت اہل حدیث کے نزدیک تراویح کی آٹھ رکعات سنت تسلیم کی گئی ہیں، جس کی تفصیل پارہ سوم میں ملاحظہ ہو۔ عجیب دلیری : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث اورموطا امام مالک میں یہ وضاحت کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا ءمیں مسلمانوں کی جماعت قائم فرمائی اورانھوں نے سنت نبوی کے مطابق یہ نماز گیارہ رکعتوں میں ادا فرمائی تھی۔ اس کے باوجود علمائے احناف کی دلیری اورجرات قابل دادا ہے، جوآٹھ رکعات تراویح کے نہ صرف منکر بلکہ اسے ناجائز اوربدعت قراردینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اورتقریباً ہرسال ان کی طرف سے آٹھ رکعات تراویح والوں کے خلاف اشتہارات، پوسٹر، کتابچے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے دیوبند سے شائع شدہ بخاری شریف کا ترجمہ تفہیم البخاری کے نام سے رکھا ہواہے۔ اس کے مترجم وشارح صاحب بڑی دلیری کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں : ”جولوگ صرف آٹھ رکعات تراویح پراکتفا کرتے اور سنت پرعمل کا دعویٰ کرتے ہیں وہ درحقیقت سواداعظم سے شذوذ اختیار کرتے ہیں اور ساری امت پر بدعت کا الزام لگاکر خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔ “ ( تفہیم البخاری، پ8ص : 30 ) یہاں علامہ مترجم صاحب دعویٰ فرمارہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح سواداعظم کا عمل ہے۔ آٹھ رکعات پر اکتفا کرنے والوں کا دعویٰ سنت غلط ہے۔ جذبہ حمایت میں انسان کتنا بہک سکتاہے یہاں یہ نمونہ نظر آرہاہے۔ یہی حضرت آگے خود اپنی اسی کتاب میں خود اپنے ہی قلم سے خود اپنی ہی تردید فرمارہے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں : ”ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات پڑھتے تھے، اوروتر اس کے علاوہ ہوتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سے مختلف ہے بہرحال دونوں احادیث پر ائمہ کا عمل ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک بیس رکعات تراویح کا ہے اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا گیارہ رکعات والی روایت پر عمل ہے۔ “ ( تفہیم البخاری، پ8، ص : 31 ) اس بیان سے موصوف کے پیچھے کے بیان کی تردید جن واضح لفظوں میں ہورہی ہے وہ سورج کی طرح عیاں ہے جس سے معلوم ہوا کہ آٹھ رکعات پڑھنے والے بھی حق بجانب ہیں اور بیس رکعات پر سواداعظم کے عمل کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما جس کی طرف مترجم صاحب نے اشارہ فرمایاہے یہ حدیث سنن کبریٰ بیہقی ص496، جلد2 پر بایں الفاظ مروی ہے : عن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی شہررمضان فی غیرجماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر تفردبہ ابوشبیۃ ابراہیم بن عثمان العبسی الکوفی وہوضعیف۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعات اوروتر پڑھا کرتے تھے۔ اس بیان میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی تنہا ہے اوروہ ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مقابلہ پر ہرگز قابل حجت نہیں ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں : ہذا الحدیث ضعیف جدا لاتقوم بہ الحجۃ۔ ( المصابیح للسیوطی ) آگے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ابوشیبہ مذکورپر محدثین کبار کی جرحیں نقل فرماکر لکھتے ہیں : ومن اتفق ہولاءالائمۃ علی تضعیفہ لایحل الاحتجاج بحدیثہ یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ تمام ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے۔ علامہ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔ علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں : وہومعلول بابی شیبۃ ابراہیم بن عثمان جدا لامام ابی بکر بن ابی شیبۃ و ہومتفق علی ضعفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث ( نصب الرایہ، ص493 ) یعنی ابوشیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول ضعیف ہے ۔ اوراس کے ضعف پر سب محدثین کرام کا اتفاق ہے۔ اورابن عدی نے اسے لین کہاہے۔ اوریہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو صحیح ہے، اس کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا یہ قابل قبول نہیں ہے۔ علامہ ابن ہمام حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر جلداول، ص333 طبع مصر پر بھی ایسا ہی لکھاہے۔ اورعلامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ حنفی نے عمدۃ القاری، طبع مصر، ص359، جلد5 پر بھی یہی لکھاہے۔ علامہ سندھی حنفی نے بھی اپنی شرح ترمذی، ص : 423، جلداوّل میں یہی لکھاہے۔ اسی لیے مولانا انورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصح عنہ ثمان رکعات واماعشرون رکعۃ فہوعنہ بسند ضعیف وعلی ضعفہ اتفاق۔ ( العرف الشذی ) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی آٹھ ہی رکعات صحیح سند سے ثابت ہیں۔ بیس رکعات والی روایت کی سند ضعیف ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔ اوجزالمسالک، جلداول، ص : 3 پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں : لاشک فی ان تحدیدالتراویح فی عشرین رکعۃ لم یثبت مرفوعاً عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح علی اصول المحدثین وماورد فیہ من روایۃ ابن عباس فمتکلم فیہا علی اصولہم انتہی۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید تعیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اصول محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے۔ اورجو روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اورضعیف ہے۔ یہ تفصیل اس لیے دی گئی تاکہ علمائے احناف کے دعویٰ بیس رکعات تراویح کی سنّیت کی حقیقت خود علمائے محققین احناف ہی کی قلم سے ظاہر ہوجائے۔ باقی تفصیل مزید کے لیے ہمارے استاذ العلماءحضرت مولانانذیراحمد صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مستطاب ”انوارالمصابیح“ کا مطالعہ کیا جائے جو اس موضوع کے مالہ وماعلیہ پر اس قدر جامع مدلل کتاب ہے کہ اب اس کی نظیر ممکن نہیں۔ جزی اللہ عناخیرالجزاءوغفراللہ لہ آمین۔ مزیدتفصیلات پ3 میں دی جاچکی ہیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ خلاصہ مطلب یہ ہے کہ تراویح ترویحۃ کی جمع ہے جو راحت سے مشتق ہے جیسے تسلیمۃ سلام سے مشتق ہے۔ رمضان کی راتوں میں جماعت سے نفل نماز پڑھنے کو تراویح کہا گیا، اس لیے کہ وہ شروع میں ہردورکعتوں کے درمیان تھوڑا سا آرام کیا کرتے تھے۔ علامہ محمدبن نصر نے قیام اللیل میں دوباب منعقد کئے ہیں۔ ایک ان کے متعلق جو اس راحت کو مستحب گردانتے ہیں۔ اورایک ان کے متعلق جو اس راحت کو اچھا نہیں جانتے۔ اور اس بارے میں یحییٰ بن بکیر نے لیث سے نقل کیا ہے کہ وہ اتنی اتنی رکعات کی ادائیگی کے بعد تھوڑی دیرآرام کیا کرتے تھے۔ اسی لیے اسے نمازتراویح سے موسوم کیا گیا۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہاں اس بارے میں پہلے اس نماز کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت لائے، پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت کے ساتھ حضرت ابن شہاب کی تشریح لائے جس میں اس نماز کا باجماعت ادا کیا جانا اوراس بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اقدام مذکور ہے۔ پھر حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی احادیث سے یہ ثابت فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس نماز کو تین راتوں تک باجماعت ادا فرماکر اس امت کے لیے مسنون قرار دیا۔ اس کے بعد اس کی تعداد کے بارے میں خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ نقل فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان یا غیررمضان میں اس نماز کو گیارہ رکعتوں کی تعداد میں پڑھا کرتے تھے۔ رمضان میں یہی نماز تراویح کے نام سے موسوم ہوئی اور غیررمضان میں تہجد کے نام سے، اور اس میں آٹھ رکعت سنت اور تین وتر۔ اس طرح کل گیارہ رکعتیں ہوا کرتی تھیں۔ حضرت حائشہ رضی اللہ عنہا کی زبان مبارک سے یہ ایسی قطعی وضاحت ہے جس کی کوئی بھی تاویل یاتردید نہیں کی جاسکتی، اسی کی بناپر جماعت اہل حدیث کے نزدیک تراویح کی آٹھ رکعات سنت تسلیم کی گئی ہیں، جس کی تفصیل پارہ سوم میں ملاحظہ ہو۔ عجیب دلیری : حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث اورموطا امام مالک میں یہ وضاحت کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی اقتدا ءمیں مسلمانوں کی جماعت قائم فرمائی اورانھوں نے سنت نبوی کے مطابق یہ نماز گیارہ رکعتوں میں ادا فرمائی تھی۔ اس کے باوجود علمائے احناف کی دلیری اورجرات قابل دادا ہے، جوآٹھ رکعات تراویح کے نہ صرف منکر بلکہ اسے ناجائز اوربدعت قراردینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اورتقریباً ہرسال ان کی طرف سے آٹھ رکعات تراویح والوں کے خلاف اشتہارات، پوسٹر، کتابچے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے سامنے دیوبند سے شائع شدہ بخاری شریف کا ترجمہ تفہیم البخاری کے نام سے رکھا ہواہے۔ اس کے مترجم وشارح صاحب بڑی دلیری کے ساتھ تحریر فرماتے ہیں : ”جولوگ صرف آٹھ رکعات تراویح پراکتفا کرتے اور سنت پرعمل کا دعویٰ کرتے ہیں وہ درحقیقت سواداعظم سے شذوذ اختیار کرتے ہیں اور ساری امت پر بدعت کا الزام لگاکر خود اپنے پر ظلم کرتے ہیں۔ “ ( تفہیم البخاری، پ8ص : 30 ) یہاں علامہ مترجم صاحب دعویٰ فرمارہے ہیں کہ بیس رکعات تراویح سواداعظم کا عمل ہے۔ آٹھ رکعات پر اکتفا کرنے والوں کا دعویٰ سنت غلط ہے۔ جذبہ حمایت میں انسان کتنا بہک سکتاہے یہاں یہ نمونہ نظر آرہاہے۔ یہی حضرت آگے خود اپنی اسی کتاب میں خود اپنے ہی قلم سے خود اپنی ہی تردید فرمارہے ہیں۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں : ”ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں بیس رکعات پڑھتے تھے، اوروتر اس کے علاوہ ہوتے تھے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اس سے مختلف ہے بہرحال دونوں احادیث پر ائمہ کا عمل ہے۔ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک بیس رکعات تراویح کا ہے اورامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا گیارہ رکعات والی روایت پر عمل ہے۔ “ ( تفہیم البخاری، پ8، ص : 31 ) اس بیان سے موصوف کے پیچھے کے بیان کی تردید جن واضح لفظوں میں ہورہی ہے وہ سورج کی طرح عیاں ہے جس سے معلوم ہوا کہ آٹھ رکعات پڑھنے والے بھی حق بجانب ہیں اور بیس رکعات پر سواداعظم کے عمل کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما جس کی طرف مترجم صاحب نے اشارہ فرمایاہے یہ حدیث سنن کبریٰ بیہقی ص496، جلد2 پر بایں الفاظ مروی ہے : عن ابن عباس قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یصلی فی شہررمضان فی غیرجماعۃ بعشرین رکعۃ والوتر تفردبہ ابوشبیۃ ابراہیم بن عثمان العبسی الکوفی وہوضعیف۔ یعنی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں جماعت کے بغیر بیس رکعات اوروتر پڑھا کرتے تھے۔ اس بیان میں راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان عبسی کوفی تنہا ہے اوروہ ضعیف ہے۔ لہٰذا یہ روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے مقابلہ پر ہرگز قابل حجت نہیں ہے۔ امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی بابت فرماتے ہیں : ہذا الحدیث ضعیف جدا لاتقوم بہ الحجۃ۔ ( المصابیح للسیوطی ) آگے علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ ابوشیبہ مذکورپر محدثین کبار کی جرحیں نقل فرماکر لکھتے ہیں : ومن اتفق ہولاءالائمۃ علی تضعیفہ لایحل الاحتجاج بحدیثہ یعنی جس شخص کی تضعیف پر یہ تمام ائمہ حدیث متفق ہوں اس کی حدیث سے حجت پکڑنا حلال نہیں ہے۔ علامہ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے بھی ایسا ہی لکھاہے۔ علامہ زیلعی حنفی لکھتے ہیں : وہومعلول بابی شیبۃ ابراہیم بن عثمان جدا لامام ابی بکر بن ابی شیبۃ و ہومتفق علی ضعفہ ولینہ ابن عدی فی الکامل ثم انہ مخالف للحدیث الصحیح عن ابی سلمۃ بن عبدالرحمن انہ سال عائشۃ الحدیث ( نصب الرایہ، ص493 ) یعنی ابوشیبہ کی وجہ سے یہ حدیث معلول ضعیف ہے ۔ اوراس کے ضعف پر سب محدثین کرام کا اتفاق ہے۔ اورابن عدی نے اسے لین کہاہے۔ اوریہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو صحیح ہے، اس کے بھی خلاف ہے۔ لہٰذا یہ قابل قبول نہیں ہے۔ علامہ ابن ہمام حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے فتح القدیر جلداول، ص333 طبع مصر پر بھی ایسا ہی لکھاہے۔ اورعلامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ حنفی نے عمدۃ القاری، طبع مصر، ص359، جلد5 پر بھی یہی لکھاہے۔ علامہ سندھی حنفی نے بھی اپنی شرح ترمذی، ص : 423، جلداوّل میں یہی لکھاہے۔ اسی لیے مولانا انورشاہ صاحب کشمیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : واما النبی صلی اللہ علیہ وسلم فصح عنہ ثمان رکعات واماعشرون رکعۃ فہوعنہ بسند ضعیف وعلی ضعفہ اتفاق۔ ( العرف الشذی ) یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح کی آٹھ ہی رکعات صحیح سند سے ثابت ہیں۔ بیس رکعات والی روایت کی سند ضعیف ہے جس کے ضعف پر سب کا اتفاق ہے۔ اوجزالمسالک، جلداول، ص : 3 پر حضرت مولانا زکریا کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں : لاشک فی ان تحدیدالتراویح فی عشرین رکعۃ لم یثبت مرفوعاً عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم بطریق صحیح علی اصول المحدثین وماورد فیہ من روایۃ ابن عباس فمتکلم فیہا علی اصولہم انتہی۔ یعنی اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ تراویح کی بیس رکعتوں کی تحدید تعیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اصول محدثین کے طریق پر ثابت نہیں ہے۔ اورجو روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بیس رکعات کے متعلق مروی ہے وہ باصول محدثین مجروح اورضعیف ہے۔ یہ تفصیل اس لیے دی گئی تاکہ علمائے احناف کے دعویٰ بیس رکعات تراویح کی سنّیت کی حقیقت خود علمائے محققین احناف ہی کی قلم سے ظاہر ہوجائے۔ باقی تفصیل مزید کے لیے ہمارے استاذ العلماءحضرت مولانانذیراحمد صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مستطاب ”انوارالمصابیح“ کا مطالعہ کیا جائے جو اس موضوع کے مالہ وماعلیہ پر اس قدر جامع مدلل کتاب ہے کہ اب اس کی نظیر ممکن نہیں۔ جزی اللہ عناخیرالجزاءوغفراللہ لہ آمین۔ مزیدتفصیلات پ3 میں دی جاچکی ہیں وہاں دیکھی جاسکتی ہیں۔