كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: «أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِاللَّهِ» . وَأَنَّ المَعْرِفَةَ فِعْلُ القَلْبِ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَلَكِنْ يُؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ} [البقرة: 225] صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلاَمٍ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَهُمْ، أَمَرَهُمْ مِنَ الأَعْمَالِ بِمَا يُطِيقُونَ، قَالُوا: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَغْضَبُ حَتَّى يُعْرَفَ الغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: «إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللَّهِ أَنَا»
کتاب: ایمان کے بیان میں
باب:رسول اللہ ﷺ اس ارشاد کی تفصیل کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ تعالٰی کو جانتا ہوں اور اس بات کا ثبوت کہ معرفت دل کا فعل ہے۔اس لئے اللہ تعالی نے فرمایا ہے “ لیکن ( اللہ ) گرفت کرے گا اس پر جو تمہارے دلوں نے کیا ہو گا۔ اور اس بات کا ثبوت کہ معرفت دل کا فعل ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے “ لیکن ( اللہ ) گرفت کرے گا اس پر جو تمہارے دلوں نے کیا ہو گا۔
یہ حدیث ہم سے محمد بن سلام نے بیان کی، وہ کہتے ہیں کہ انھیں اس کی عبدہ نے خبر دی، وہ ہشام سے نقل کرتے ہیں، ہشام حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی کام کا حکم دیتے تو وہ ایسا ہی کام ہوتا جس کے کرنے کی لوگوں میں طاقت ہوتی ( اس پر ) صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ہم لوگ تو آپ جیسے نہیں ہیں ( آپ تو معصوم ہیں ) اور آپ کی اللہ پاک نے اگلی پچھلی سب لغزشیں معاف فرما دی ہیں۔ ( اس لیے ہمیں اپنے سے کچھ زیادہ عبادت کرنے کا حکم فرمائیں ) ( یہ سن کر ) آپ ناراض ہوئے حتیٰ کہ خفگی آپ کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہونے لگی۔ پھر فرمایا کہ بے شک میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سب سے زیادہ اسے جانتا ہوں۔ ( پس تم مجھ سے بڑھ کر عبادت نہیں کر سکتے
تشریح :
اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہ اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جوکہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی وزیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان انااعلمکم باللہ سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہوسکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہ بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرومگرمجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی خدا کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔
اس باب کے تحت بھی امام بخاری رحمہ اللہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے اور دل کا یہ فعل ہرجگہ یکساں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب کی ایمانی کیفیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہ اور ساری مخلوقات سے بڑھ کر تھی۔ یہاں حضرت امام بخاری مرجیہ کے ساتھ کرامیہ کے قول کا بطلان بھی ثابت کرنا چاہتے ہیں جوکہتے ہیں کہ ایمان صرف قول کا نام ہے اور یہ حدیث ایمان کی کمی وزیادتی کے لیے بھی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان انااعلمکم باللہ سے ظاہر ہے کہ علم باللہ کے درجات ہیں اور اس بارے میں لوگ ایک دوسرے سے کم زیادہ ہوسکتے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں جمیع صحابہ رضی اللہ عنہ بلکہ تمام انسانوں سے بڑھ چڑھ کر حیثیت رکھتے ہیں۔ بعض صحابی آپ سے بڑھ کر عبادت کرنا چاہتے تھے۔ آپ نے اس خیال کی تغلیط میں فرمایا کہ تمہارا یہ خیال صحیح نہیں۔ تم کتنی ہی عبادت کرومگرمجھ سے نہیں بڑھ سکتے ہو اس لیے کہ معرفت خداوندی تم سب سے زیادہ مجھ ہی کو حاصل ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عبادت میں میانہ روی ہی خدا کو پسند ہے۔ ایسی عبادت جو طاقت سے زیادہ ہو، اسلام میں پسندیدہ نہیں ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان معرفت رب کا نام ہے اور معرفت کا تعلق دل سے ہے۔ اس لیے ایمان محض زبانی اقرار کو نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے لیے معرفت قلب بھی ضروری ہے اور ایمان کی کمی وبیشی بھی ثابت ہوئی۔