كِتَابُ بَدْءِ الوَحْيِ بَابٌ صحيح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ أُمِّ المُؤْمِنِينَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ الحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ يَأْتِيكَ الوَحْيُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «أَحْيَانًا يَأْتِينِي مِثْلَ صَلْصَلَةِ الجَرَسِ، وَهُوَ أَشَدُّهُ عَلَيَّ، فَيُفْصَمُ عَنِّي وَقَدْ وَعَيْتُ عَنْهُ مَا قَالَ، وَأَحْيَانًا يَتَمَثَّلُ لِيَ المَلَكُ رَجُلًا فَيُكَلِّمُنِي فَأَعِي مَا يَقُولُ» [ص:7] قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: وَلَقَدْ رَأَيْتُهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ الوَحْيُ فِي اليَوْمِ الشَّدِيدِ البَرْدِ، فَيَفْصِمُ عَنْهُ وَإِنَّ جَبِينَهُ لَيَتَفَصَّدُ عَرَقًا
کتاب: وحی کے بیان میں
باب: (حدیث نیت کی درستگی میں)
ہم کو عبداللہ بن یوسف نے حدیث بیان کی، ان کو مالک نے ہشام بن عروہ کی روایت سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے نقل کی، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی۔ آپ نے فرمایا کہ ایک شخص حارث بن ہشام نامی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ حضور آپ پر وحی کیسے نازل ہوتی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وحی نازل ہوتے وقت کبھی مجھ کو گھنٹی کی سی آواز محسوس ہوتی ہے اور وحی کی یہ کیفیت مجھ پر بہت شاق گذرتی ہے۔ جب یہ کیفیت ختم ہوتی ہے تو میرے دل و دماغ پر اس ( فرشتے ) کے ذریعہ نازل شدہ وحی محفوظ ہو جاتی ہے اور کسی وقت ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ بشکل انسان میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے۔ پس میں اس کا کہا ہوا یاد رکھ لیتا ہوں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میں نے سخت کڑاکے کی سردی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوئی اور جب اس کا سلسلہ موقوف ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پسینے سے شرابور تھی۔
تشریح :
انبیاءعلیہم السلام خصوصاً حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے مختلف طریقے رہے ہیں۔ انبیاءکے خواب بھی وحی ہوتے ہیں اور ان کے قلوب مجلّیٰ پر جو واردات یا الہامات ہوتے ہیں وہ بھی وحی ہیں۔ کبھی اللہ کا فرستادہ فرشتہ اصل صورت میں ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور کبھی بصورت بشرحاضرہوکر ان کو خدا کا فرمان سناتا ہے۔ کبھی باری تعالیٰ وتقدس خودبراہ راست اپنے رسول سے خطاب فرماتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں وقتاً فوقتاً وحی کی یہ جملہ اقسام پائی گئیں۔ حدیث بالا میں جو گھنٹی کی آواز کی مشابہت کا ذکر آیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے وحی مرادلے کر آنے والے فرشتے کے پیروں کی آواز مراد بتلائی ہے، بعض حضرات نے اس آواز سے صوت باری کو مرادلیا ہے اور قرآنی آیت وماکان لبشر ان يکلمہ اللہ الا وحيا اومن ورآي حجابٍ الخ ( الشوریٰ: 51 ) کے تحت اسے وراءحجاب والی صورت سے تعبیر کیا ہے، آج کل ٹیلی فون کی ایجاد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ فون کرنے والا پہلے گھنٹی پر انگلی رکھتا ہے اور وہ آواز جہاں فون کرتا ہے گھنٹی کی شکل میں آواز دیتی ہے۔ یہ تو اللہ پاک کی طرف سے ایک غیبی روحانی فون ہی ہے جو عالم بالا سے اس کے مقبول بندگان انبیاء ورسل کے قلوب مبارکہ پر نزول کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول اس کثرت سے ہوا کہ اسے باران رحمت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید وہ وحی ہے جسے وحی متلو کہا جاتا ہے، یعنی وہ وحی جو تاقیام دنیا مسلمانوں کی تلاوت میں رہے گی اور وحی غیرمتلوآپ کی احادیث قدسیہ ہیں جن کو قرآن مجید میں “ الحکمۃ ” سے تعبیرکیا گیا ہے۔ ہر دوقسم کی وحی کی حفاظت اللہ پاک نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور اس چودہ سوسال کے عرصہ میں جس طرح قرآن کریم کی خدمت وحفاظت کے لیے حفاظ، قرائ، علمائ،فضلائ، مفسرین پیدا ہوتے رہے، اسی طرح احادیث نبویہ کی حفاظت کے لیے اللہ پاک نے گروہ محدثین امام بخاری رحمہ اللہ و مسلم رحمہ اللہ وغیرہم جیسوں کو پیدا کیا۔ جنھوں نے علم نبوی کی وہ خدمت کی کہ قیامت تک امت ان کے احسان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ حدیث نبوی کہ اگردین ثریا پر ہوگا توآل فارس سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو وہاں سے بھی اسے حاصل کرلیں گے، بلاشک وشبہ اس سے بھی یہی محدثین کرام امام بخاری ومسلم وغیرہم مرادہیں۔ جنھوں نے احادیث نبوی کی طلب میں ہزارہا میل پیدل سفرکیا اور بڑی بڑی تکالیف برداشت کرکے ان کو مدون فرمایا۔
صدافسوس کہ آج اس چودہویں صدی میں کچھ لوگ کھلم کھلا احادیث نبوی کا انکار کرتے اور محدثین کرام پر پھبتیاں اڑاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی پیدا ہوچلے ہیں جو بظاہر ان کے احترام کا دم بھرتے ہیں اور در پردہ ان کو غیرثقہ، محض روایت کنندہ، درایت سے عاری، ناقص الفہم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ مگراللہ پاک نے اپنے مقبول بندوں کی خدماتِ جلیلہ کو جو دوام بخشا اور ان کو قبول عام عطا فرمایا وہ ایسی غلط کاوشوں سے زائل نہیں ہوسکتا۔الغرض وحی کی چارصورتیں ہیں ( 1 ) اللہ پاک براہِ راست اپنے رسول نبی سے خطاب فرمائے ( 2 ) کوئی فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ( 3 ) یہ کہ قلب پر القاءہو ( 4 ) چوتھے یہ کہ سچے خواب دکھائی دیں۔
اصطلاحی طور پر وحی کا لفظ صرف پیغمبروں کے لیے بولا جاتا ہے اور الہام عام ہے جو دوسرے نیک بندوں کو بھی ہوتا رہتا ہے۔ قرآن مجید میں جانوروں کے لیے بھی لفظ الہام کا استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ واوحی ربک الی النحل ( النحل: 68 ) میں مذکور ہے۔ وحی کی مزیدتفصیل کے لیے حضرت امام حدیث ذیل نقل فرماتے ہیں: ( حدیث مبارکہ نمبر 3 دیکھیں )ِ
انبیاءعلیہم السلام خصوصاً حضرت سیدنا ومولانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے مختلف طریقے رہے ہیں۔ انبیاءکے خواب بھی وحی ہوتے ہیں اور ان کے قلوب مجلّیٰ پر جو واردات یا الہامات ہوتے ہیں وہ بھی وحی ہیں۔ کبھی اللہ کا فرستادہ فرشتہ اصل صورت میں ان سے ہم کلام ہوتا ہے اور کبھی بصورت بشرحاضرہوکر ان کو خدا کا فرمان سناتا ہے۔ کبھی باری تعالیٰ وتقدس خودبراہ راست اپنے رسول سے خطاب فرماتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں وقتاً فوقتاً وحی کی یہ جملہ اقسام پائی گئیں۔ حدیث بالا میں جو گھنٹی کی آواز کی مشابہت کا ذکر آیا ہے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے وحی مرادلے کر آنے والے فرشتے کے پیروں کی آواز مراد بتلائی ہے، بعض حضرات نے اس آواز سے صوت باری کو مرادلیا ہے اور قرآنی آیت وماکان لبشر ان يکلمہ اللہ الا وحيا اومن ورآي حجابٍ الخ ( الشوریٰ: 51 ) کے تحت اسے وراءحجاب والی صورت سے تعبیر کیا ہے، آج کل ٹیلی فون کی ایجاد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ فون کرنے والا پہلے گھنٹی پر انگلی رکھتا ہے اور وہ آواز جہاں فون کرتا ہے گھنٹی کی شکل میں آواز دیتی ہے۔ یہ تو اللہ پاک کی طرف سے ایک غیبی روحانی فون ہی ہے جو عالم بالا سے اس کے مقبول بندگان انبیاء ورسل کے قلوب مبارکہ پر نزول کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول اس کثرت سے ہوا کہ اسے باران رحمت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید وہ وحی ہے جسے وحی متلو کہا جاتا ہے، یعنی وہ وحی جو تاقیام دنیا مسلمانوں کی تلاوت میں رہے گی اور وحی غیرمتلوآپ کی احادیث قدسیہ ہیں جن کو قرآن مجید میں “ الحکمۃ ” سے تعبیرکیا گیا ہے۔ ہر دوقسم کی وحی کی حفاظت اللہ پاک نے اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور اس چودہ سوسال کے عرصہ میں جس طرح قرآن کریم کی خدمت وحفاظت کے لیے حفاظ، قرائ، علمائ،فضلائ، مفسرین پیدا ہوتے رہے، اسی طرح احادیث نبویہ کی حفاظت کے لیے اللہ پاک نے گروہ محدثین امام بخاری رحمہ اللہ و مسلم رحمہ اللہ وغیرہم جیسوں کو پیدا کیا۔ جنھوں نے علم نبوی کی وہ خدمت کی کہ قیامت تک امت ان کے احسان سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ حدیث نبوی کہ اگردین ثریا پر ہوگا توآل فارس سے کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو وہاں سے بھی اسے حاصل کرلیں گے، بلاشک وشبہ اس سے بھی یہی محدثین کرام امام بخاری ومسلم وغیرہم مرادہیں۔ جنھوں نے احادیث نبوی کی طلب میں ہزارہا میل پیدل سفرکیا اور بڑی بڑی تکالیف برداشت کرکے ان کو مدون فرمایا۔
صدافسوس کہ آج اس چودہویں صدی میں کچھ لوگ کھلم کھلا احادیث نبوی کا انکار کرتے اور محدثین کرام پر پھبتیاں اڑاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی پیدا ہوچلے ہیں جو بظاہر ان کے احترام کا دم بھرتے ہیں اور در پردہ ان کو غیرثقہ، محض روایت کنندہ، درایت سے عاری، ناقص الفہم ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہتے ہیں۔ مگراللہ پاک نے اپنے مقبول بندوں کی خدماتِ جلیلہ کو جو دوام بخشا اور ان کو قبول عام عطا فرمایا وہ ایسی غلط کاوشوں سے زائل نہیں ہوسکتا۔الغرض وحی کی چارصورتیں ہیں ( 1 ) اللہ پاک براہِ راست اپنے رسول نبی سے خطاب فرمائے ( 2 ) کوئی فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر آئے ( 3 ) یہ کہ قلب پر القاءہو ( 4 ) چوتھے یہ کہ سچے خواب دکھائی دیں۔
اصطلاحی طور پر وحی کا لفظ صرف پیغمبروں کے لیے بولا جاتا ہے اور الہام عام ہے جو دوسرے نیک بندوں کو بھی ہوتا رہتا ہے۔ قرآن مجید میں جانوروں کے لیے بھی لفظ الہام کا استعمال ہوا ہے۔ جیسا کہ واوحی ربک الی النحل ( النحل: 68 ) میں مذکور ہے۔ وحی کی مزیدتفصیل کے لیے حضرت امام حدیث ذیل نقل فرماتے ہیں: ( حدیث مبارکہ نمبر 3 دیکھیں )ِ