كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صِيَامِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عِيسى بْنِ أَبِي لَيْلَى عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَعَنْ سَالِمٍ عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَا لَمْ يُرَخَّصْ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ أَنْ يُصَمْنَ إِلَّا لِمَنْ لَمْ يَجِدْ الْهَدْيَ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : ایام تشریق کے روزے رکھنا
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے عبداللہ بن عیسیٰ سے سنا، انہوں نے زہری سے، انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے ( نیز زہری نے اس حدیث کو ) سالم سے بھی سنا، اور انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا ( عائشہ او رابن عمر رضی اللہ عنہم ) دونوں نے بیان کیا کہ کسی کو ایام تشریق میں روزہ رکھنے کی اجازت نہیں مگر اس کے لیے جسے قربانی کا مقدور نہ ہو۔
تشریح :
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایام التشریق ای الایام التی بعد یوم النحر و قد اختلف فی کونہا یومین او ثلاثۃ و سمیت ایام التشریق لان لحوم الاضاحی تشرق فیہا ای تنشر فی الشمس الخ یعنی ایام تشریق یوم النحر دس ذی الحجہ کے بعد والے دنوں کو کہتے ہیں جو دو ہیں یا تین اس بارے میں اختلاف ہے ( مگر تین ہونے کو ترجیح حاصل ہے ) اور ان کا نام ایام تشریق اس لیے رکھا گیا کہ ان میں قربانیوں کا گوشت سکھانے کے لیے دھوپ میں پھیلا دیا جاتا تھا۔ والراجع عند البخاری جوازہ للمتمتع فانہ ذکر فی الباب حدیث عائشہ و ابن عمر فی جواز ذلک و لم یورد غیرہ یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج تمتع والے کے لیے ( جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو ) ان ایام میں روزہ رکھنا جائز ہے، آپ نے باب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی احادیث ذکر کی ہیں اور کوئی ان کے غیر حدیث نہیں لائے۔ جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہ غیر متمتع کے حق میں قرار دی جاسکتی ہیں۔ اور جواز والی احادیث متمتع کے حق میں جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ اس طرح ہر دو احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ یہ ہے یترجح القول بالجواز و الی ہذا جنح البخاری ( فتح ) یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جواز کے قائل ہیں اور اسی قوال کو ترجیح حاصل ہے۔
ابراہیم بن سعد عن ابن شہاب کے اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے وصل کیا قال اخبرنی ابراہیم بن سعد عن ابن شہاب عن عروۃ عن عائشۃ فی المتمتع اذا لم یجد ہدیاولم یصم قبل عرفۃ فلیصم ایام منی یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ متمتع ایام تشریق میں روزہ رکھے جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو۔
المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و حمل المطلق علی المقید واجب و کذا بناءالعام علی الخاص قال الشوکانی و ہذا اقوی المذاہب و اما القائل بالجواز مطلقاً فاحادیث جمیعہا ترد علیہ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے اور اسی طرح عام کو خاص پر بنا کرنا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں اور یہ قوی تر مذہب ہے اور جو لوگ مطلق جواز کے قائل ہیں پس جملہ احادیث ان کی تردید کرتی ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ فرماتے ہیں ایام التشریق ای الایام التی بعد یوم النحر و قد اختلف فی کونہا یومین او ثلاثۃ و سمیت ایام التشریق لان لحوم الاضاحی تشرق فیہا ای تنشر فی الشمس الخ یعنی ایام تشریق یوم النحر دس ذی الحجہ کے بعد والے دنوں کو کہتے ہیں جو دو ہیں یا تین اس بارے میں اختلاف ہے ( مگر تین ہونے کو ترجیح حاصل ہے ) اور ان کا نام ایام تشریق اس لیے رکھا گیا کہ ان میں قربانیوں کا گوشت سکھانے کے لیے دھوپ میں پھیلا دیا جاتا تھا۔ والراجع عند البخاری جوازہ للمتمتع فانہ ذکر فی الباب حدیث عائشہ و ابن عمر فی جواز ذلک و لم یورد غیرہ یعنی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک حج تمتع والے کے لیے ( جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو ) ان ایام میں روزہ رکھنا جائز ہے، آپ نے باب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کی احادیث ذکر کی ہیں اور کوئی ان کے غیر حدیث نہیں لائے۔ جن احادیث میں ممانعت آئی ہے وہ غیر متمتع کے حق میں قرار دی جاسکتی ہیں۔ اور جواز والی احادیث متمتع کے حق میں جو قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو۔ اس طرح ہر دو احادیث میں تطبیق ہو جاتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کا فیصلہ یہ ہے یترجح القول بالجواز و الی ہذا جنح البخاری ( فتح ) یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جواز کے قائل ہیں اور اسی قوال کو ترجیح حاصل ہے۔
ابراہیم بن سعد عن ابن شہاب کے اثر کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے وصل کیا قال اخبرنی ابراہیم بن سعد عن ابن شہاب عن عروۃ عن عائشۃ فی المتمتع اذا لم یجد ہدیاولم یصم قبل عرفۃ فلیصم ایام منی یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ متمتع ایام تشریق میں روزہ رکھے جس کو قربانی کا مقدور نہ ہو۔
المحدث الکبیر حضرت مولانا عبدالرحمن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و حمل المطلق علی المقید واجب و کذا بناءالعام علی الخاص قال الشوکانی و ہذا اقوی المذاہب و اما القائل بالجواز مطلقاً فاحادیث جمیعہا ترد علیہ ( تحفۃ الاحوذی ) یعنی مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے اور اسی طرح عام کو خاص پر بنا کرنا۔ امام شوکانی فرماتے ہیں اور یہ قوی تر مذہب ہے اور جو لوگ مطلق جواز کے قائل ہیں پس جملہ احادیث ان کی تردید کرتی ہیں۔