كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صَوْمِ يَوْمِ النَّحْرِ صحيح حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عُمَيْرٍ قَالَ سَمِعْتُ قَزَعَةَ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَكَانَ غَزَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ غَزْوَةً قَالَ سَمِعْتُ أَرْبَعًا مِنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْجَبْنَنِي قَالَ لَا تُسَافِرْ الْمَرْأَةُ مَسِيرَةَ يَوْمَيْنِ إِلَّا وَمَعَهَا زَوْجُهَا أَوْ ذُو مَحْرَمٍ وَلَا صَوْمَ فِي يَوْمَيْنِ الْفِطْرِ وَالْأَضْحَى وَلَا صَلَاةَ بَعْدَ الصُّبْحِ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ وَلَا بَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ وَلَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إِلَى ثَلَاثَةِ مَسَاجِدَ مَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الْأَقْصَى وَمَسْجِدِي هَذَا
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : عید الاضحی کے دن کا روزہ رکھنا
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے بیان کیا، کہا کہ میں نے قزعہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ جہادوں میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چار باتیں سنی ہیں جو مجھے بہت ہی پسند آئیں۔ آپ نے فرمایا کہ کوئی عورت دو دن ( یا اس سے زیادہ ) کے اندازے کا سفر اس وقت تک نہ کرے جب تک اس کے ساتھ اس کا شوہر یا کوئی اورمحرم نہ ہو۔ اور عید الفطر اور عید الاضحی کے دنوں میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے اور صبح کی نماز کے بعد رسوج نکلنے تک اور عصر کی نماز کے بعد سورج ڈوبنے تک کوئی نماز جائز نہیں اور چوتھی بات یہ کہ تین مساجد کے سوا اور کسی جگہ کے لیے شد رحال ( سفر ) نہ کیا جائے، ” مسجد حرام، مسجد اقصی او رمیری یہ مسجد۰
تشریح :
بیان کردہ تینوں چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا خطرہ سے خالی نہیں اور عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں، ان میں روزہ بالکل غیر مناسب ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعد یا نماز عصر کے بعد کوئی نماز پڑھنا ناجائز ہے اور تین مساجد کے سوا کسی بھی جگہ کے لیے تقرب حاصل کرنے کی غرض سے سفر کرنا شریعت میں قطعاً ناجائز ہے۔ خاص طور پر آج کل قبروں، مزاروں کی زیارت کے لیے نذر و نیاز کے طور پر سفر کئے جاتے ہیں، جو ہو بہو بت پرست قوموں کی نقل ہے۔ شریعت محمدیہ میں اس قسم کے کاموں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ حدیث لاتشد الرحال کی مفصل تشریح پیچھے لکھی جاچکی ہے۔
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں : فیہ بیان عظم فضیلۃ ہذہ المساجد الثلثۃ و مزیتہا علی غیرہا لکونہا مساجد الانبیاءصلٰوۃ اللہ و سلامہ علیہم وافضل الصلوۃ فیہا ولو نذر الذہاب الی المسجد الحرام لزمہ قصدہ لحج او عمرۃ و لو نذر الی المسجدین الاخرین فقولان للشافعی اصحہما عند اصحابہ یستحب قصدہما و لا یجب والثانی یجب و بہ قال کثیرون من العلماءو اما باقی المساجد سوی الثلاثۃ فلا یجب قصدہا بالنذر و لا ینعقد نذر قصدہا۔ ہذا مذہبنا و مذہب العلماءکافۃ الا محمد بن المسلمۃ المالکی فقال اذا نذر قصد مسجد قباءلزمہ قصدہ لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یاتیہ کل سبت راکبئا و ما شیئا و قال اللیث بن سعد یلزمہ قصد ذلک المسجد ای مسجد کان و علی مذہب الجماہیر لا ینعقد نذرہ و لا یلزمہ شئی و قال احمد یلزمہ کفارۃ یمین۔
واختلف العلماءفی شد الرحال و اعمال المطی الی غیر المساجد الثلاثۃ کالذہاب الی قبور الصالحین الی المواضع الفاضلۃ و نحو ذلک فقال الشیخ ابومحمد الجونبی من اصحابنا ہو حرام و ہو الذی اشار القاضی عیاض الی اختیارہ۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنے والے بزرگ ہیں۔ اپنے دور کے بہت ہی بڑے عالم فاضل، حدیث و قرآن کے ماہر اور متدین اہل اللہ شمار کئے گئے ہیں۔ آپ کی مذکورہ عبارت کا خلاصہ مطلب یہ کہ ان تینوں مساجد کی فضیلت اور بزرگی دیگر مساجد پر اس وجہ سے ہے کہ ان مساجد کی نسبت کئی بڑے بڑے انبیاءعلیہم السلام سے ہے یا اس لیے کہ ان میں نماز پڑھنا بہت فضیلت رکھتا ہے اگر کوئی حج یا عمرہ کے لیے مسجد حرام میں جانے کی نذر مانے تو اس کا پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوگا۔ اور اگر دوسری مساجد کی طرف جانے کی نذر مانے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب اس نذر کا پورا کرنا مستحب جانتے ہیں نہ کہ واجب اور دوسرے علماءاس نذر کا پورا کرنا بھی واجب جانتے ہیں اور اکثر علماءکا یہی قول ہے۔ ان تین کے سوا باقی مساجد کا نذر وغیرہ کے طور پر قصد کرنا واجب نہیں بلکہ ایسے قصد کی نذر ہی منقعد نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا اور بیشتر علماءکا مذہب ہے۔ مگر محمد بن مسلمہ مالکی کہتے ہیں کہ مسجد قباءمیں جانے کی نذر واجب ہو جاتی ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ پیدل و سوار وہاں جایا کرتے تھے۔ اور لیث بن سعد نے ہر مسجد کے لیے ایسی نذر اور اس کا پورا کرنا ضروری کہا ہے، لیکن جمہو رکے نزدیک ایسی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی اور نہ اس پر کوئی کفارہ لازم ہے۔ مگر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے قسم جیسا کفار لازم قرار دیا ہے۔
اور مساجد ثلاثہ کے علاوہ قبور صالحین یا ایسے مقامات کی طرف پالان سفر باندھنا اس بارے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابومحمد جوینی نے اسے حرام قرار دیا ہے اور قاضی عیاض کا بھی اشارہ اسی طرف ہے اور حدیث نبوی جو یہاں مذکور ہوئی ہے وہ بھی اپنے معنی میں ظاہر ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین مذکورہ مساجد کے علاوہ ہر جگہ کے لیے بغرض تقرب الی اللہ پالان سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کے ہوتے ہوئے کسی کا قول قابل اعتبار نہیں۔ خواہ وہ قائل کسے باشد۔
مذہب محقق یہی ہے کہ شد رحال صرف ان ہی تین مساجد کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی جگہ کے لیے یہ جائز نہیں۔ شد رحال کی تشریح میں یہ داخل ہے کہ وہ قصد تقرب الٰہی کے خیال سے کیا جائے۔
قبور صالحین کے لیے شد رحال کرنا اور وہاں جا کر تقرب الٰہی کا عقیدہ رکھنا یہ بالکل ہی بے دلیل عمل ہے اور آج کل قبور اولیاءکی طرف شدر حال تو بالکل ہی بت پرستی کا چربہ ہے۔
بیان کردہ تینوں چیزیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا خطرہ سے خالی نہیں اور عیدین کے دن کھانے پینے کے دن ہیں، ان میں روزہ بالکل غیر مناسب ہے۔ اسی طرح نماز فجر کے بعد یا نماز عصر کے بعد کوئی نماز پڑھنا ناجائز ہے اور تین مساجد کے سوا کسی بھی جگہ کے لیے تقرب حاصل کرنے کی غرض سے سفر کرنا شریعت میں قطعاً ناجائز ہے۔ خاص طور پر آج کل قبروں، مزاروں کی زیارت کے لیے نذر و نیاز کے طور پر سفر کئے جاتے ہیں، جو ہو بہو بت پرست قوموں کی نقل ہے۔ شریعت محمدیہ میں اس قسم کے کاموں کی ہرگز گنجائش نہیں ہے۔ حدیث لاتشد الرحال کی مفصل تشریح پیچھے لکھی جاچکی ہے۔
حضرت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے ذیل میں فرماتے ہیں : فیہ بیان عظم فضیلۃ ہذہ المساجد الثلثۃ و مزیتہا علی غیرہا لکونہا مساجد الانبیاءصلٰوۃ اللہ و سلامہ علیہم وافضل الصلوۃ فیہا ولو نذر الذہاب الی المسجد الحرام لزمہ قصدہ لحج او عمرۃ و لو نذر الی المسجدین الاخرین فقولان للشافعی اصحہما عند اصحابہ یستحب قصدہما و لا یجب والثانی یجب و بہ قال کثیرون من العلماءو اما باقی المساجد سوی الثلاثۃ فلا یجب قصدہا بالنذر و لا ینعقد نذر قصدہا۔ ہذا مذہبنا و مذہب العلماءکافۃ الا محمد بن المسلمۃ المالکی فقال اذا نذر قصد مسجد قباءلزمہ قصدہ لان النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یاتیہ کل سبت راکبئا و ما شیئا و قال اللیث بن سعد یلزمہ قصد ذلک المسجد ای مسجد کان و علی مذہب الجماہیر لا ینعقد نذرہ و لا یلزمہ شئی و قال احمد یلزمہ کفارۃ یمین۔
واختلف العلماءفی شد الرحال و اعمال المطی الی غیر المساجد الثلاثۃ کالذہاب الی قبور الصالحین الی المواضع الفاضلۃ و نحو ذلک فقال الشیخ ابومحمد الجونبی من اصحابنا ہو حرام و ہو الذی اشار القاضی عیاض الی اختیارہ۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ صحیح مسلم شریف کی شرح لکھنے والے بزرگ ہیں۔ اپنے دور کے بہت ہی بڑے عالم فاضل، حدیث و قرآن کے ماہر اور متدین اہل اللہ شمار کئے گئے ہیں۔ آپ کی مذکورہ عبارت کا خلاصہ مطلب یہ کہ ان تینوں مساجد کی فضیلت اور بزرگی دیگر مساجد پر اس وجہ سے ہے کہ ان مساجد کی نسبت کئی بڑے بڑے انبیاءعلیہم السلام سے ہے یا اس لیے کہ ان میں نماز پڑھنا بہت فضیلت رکھتا ہے اگر کوئی حج یا عمرہ کے لیے مسجد حرام میں جانے کی نذر مانے تو اس کا پورا کرنا اس کے لیے لازم ہوگا۔ اور اگر دوسری مساجد کی طرف جانے کی نذر مانے تو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب اس نذر کا پورا کرنا مستحب جانتے ہیں نہ کہ واجب اور دوسرے علماءاس نذر کا پورا کرنا بھی واجب جانتے ہیں اور اکثر علماءکا یہی قول ہے۔ ان تین کے سوا باقی مساجد کا نذر وغیرہ کے طور پر قصد کرنا واجب نہیں بلکہ ایسے قصد کی نذر ہی منقعد نہیں ہوتی۔ یہ ہمارا اور بیشتر علماءکا مذہب ہے۔ مگر محمد بن مسلمہ مالکی کہتے ہیں کہ مسجد قباءمیں جانے کی نذر واجب ہو جاتی ہے کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ پیدل و سوار وہاں جایا کرتے تھے۔ اور لیث بن سعد نے ہر مسجد کے لیے ایسی نذر اور اس کا پورا کرنا ضروری کہا ہے، لیکن جمہو رکے نزدیک ایسی نذر منعقد ہی نہیں ہوتی اور نہ اس پر کوئی کفارہ لازم ہے۔ مگر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے قسم جیسا کفار لازم قرار دیا ہے۔
اور مساجد ثلاثہ کے علاوہ قبور صالحین یا ایسے مقامات کی طرف پالان سفر باندھنا اس بارے میں علماءنے اختلاف کیا ہے۔ ہمارے اصحاب میں سے شیخ ابومحمد جوینی نے اسے حرام قرار دیا ہے اور قاضی عیاض کا بھی اشارہ اسی طرف ہے اور حدیث نبوی جو یہاں مذکور ہوئی ہے وہ بھی اپنے معنی میں ظاہر ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تین مذکورہ مساجد کے علاوہ ہر جگہ کے لیے بغرض تقرب الی اللہ پالان سفر باندھنے سے منع فرمایا ہے۔ اس حدیث کے ہوتے ہوئے کسی کا قول قابل اعتبار نہیں۔ خواہ وہ قائل کسے باشد۔
مذہب محقق یہی ہے کہ شد رحال صرف ان ہی تین مساجد کے ساتھ مخصوص ہے اور کسی جگہ کے لیے یہ جائز نہیں۔ شد رحال کی تشریح میں یہ داخل ہے کہ وہ قصد تقرب الٰہی کے خیال سے کیا جائے۔
قبور صالحین کے لیے شد رحال کرنا اور وہاں جا کر تقرب الٰہی کا عقیدہ رکھنا یہ بالکل ہی بے دلیل عمل ہے اور آج کل قبور اولیاءکی طرف شدر حال تو بالکل ہی بت پرستی کا چربہ ہے۔