‌صحيح البخاري - حدیث 1994

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صَوْمِ يَوْمِ النَّحْرِ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا مُعَاذٌ أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ قَالَ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَقَالَ رَجُلٌ نَذَرَ أَنْ يَصُومَ يَوْمًا قَالَ أَظُنُّهُ قَالَ الِاثْنَيْنِ فَوَافَقَ ذَلِكَ يَوْمَ عِيدٍ فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ أَمَرَ اللَّهُ بِوَفَاءِ النَّذْرِ وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ صَوْمِ هَذَا الْيَوْمِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1994

کتاب: روزے کے مسائل کا بیان باب : عید الاضحی کے دن کا روزہ رکھنا ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے معاذ بن معاذ عنبری نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبداللہ بن عون نے خبر دی، ان سے زیاد بن جبیر نے بیان کیا کہ ایک شخص ابن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ایک شخص نے ایک دن کے روزے کے نذر مانی۔ پھر کہا کہ میرا خیال ہے کہ وہ پیر کا دن ہے اور اتفاق سے وہی عید کا دن پڑگیا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تو نذر پوری کرنے کا حکم دیا ہے او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے سے ( اللہ کے حکم سے ) منع فرمایا ہے۔ ( گویا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کوئی قطعی فیصلہ نہیں دیا۔
تشریح : علامہ ابن حجر فرماتے ہیں : لم یفسر العید فی ہذہ الروایۃ و مقتضی ادخالہ ہذا الحدیث فی ترجمۃ صوم یوم النحر ان یکون المسؤل عنہ یوم النحر و ہو مصرح بہ فی روایۃ یزید بن زریع المذکورۃ و لفظہ فوافق یوم النحر یعنی اس روایت میں عید کی وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سی عید تھی اور یہاں باب کا اقتضاءعیدالاضحی ہے سو اس کی تصریح یزید بن زریع کی روایت میں موجود ہے جس میں یہ ہے کہ اتفاق سے اس دن قربانی کا دن پڑگیا تھا۔ یزید بن زریع کی روایت میں یہ لفظ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اور ایسا ہی احمد کی روایت میں ہے جسے انہوں نے اسماعیل بن علیہ سے، انہوں نے یونس سے نقل کیا ہے، پس ثابت ہو گیا کہ روایت میں یوم عید سے عید الاضحی یوم النحر مراد ہے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں : لم یفسر العید فی ہذہ الروایۃ و مقتضی ادخالہ ہذا الحدیث فی ترجمۃ صوم یوم النحر ان یکون المسؤل عنہ یوم النحر و ہو مصرح بہ فی روایۃ یزید بن زریع المذکورۃ و لفظہ فوافق یوم النحر یعنی اس روایت میں عید کی وضاحت نہیں ہے کہ وہ کون سی عید تھی اور یہاں باب کا اقتضاءعیدالاضحی ہے سو اس کی تصریح یزید بن زریع کی روایت میں موجود ہے جس میں یہ ہے کہ اتفاق سے اس دن قربانی کا دن پڑگیا تھا۔ یزید بن زریع کی روایت میں یہ لفظ وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ اور ایسا ہی احمد کی روایت میں ہے جسے انہوں نے اسماعیل بن علیہ سے، انہوں نے یونس سے نقل کیا ہے، پس ثابت ہو گیا کہ روایت میں یوم عید سے عید الاضحی یوم النحر مراد ہے۔