كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صَوْمِ يَوْمِ عَرَفَةَ صحيح حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ أَوْ قُرِئَ عَلَيْهِ قَالَ أَخْبَرَنِي عَمْرٌو عَنْ بُكَيْرٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ مَيْمُونَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّاسَ شَكُّوا فِي صِيَامِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَرَفَةَ فَأَرْسَلَتْ إِلَيْهِ بِحِلَابٍ وَهُوَ وَاقِفٌ فِي الْمَوْقِفِ فَشَرِبَ مِنْهُ وَالنَّاسُ يَنْظُرُونَ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : عرفہ کے دن روزہ رکھنا
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، ( یا ان کے سامنے حدیث کی قرات کی گئی )۔ کہا کہ مجھ کو عمرو نے خبر دی، انہیں بکیر نے، انہیں کریب نے اور انہیں میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہ عرفہ کے دن کچھ لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک ہوا۔ اس لیے انہوں نے آپ کی خدمت میں دودھ بھیجا۔ آپ اس وقت عرفات میں وقوف فرما تھے۔ آپ نے دودھ پی لیا اور سب لوگ دیکھ رہے تھے۔
تشریح :
عبداللہ بن وہب نے خود یہ حدیث یحییٰ کو سنائی یا عبداللہ بن وہب کے شاگردوں نے ان کو سنائی، دونوں طرح حدیث کی روایت صحیح ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں ان حدیثوں کو ذکر نہیں کیا جن میں عرفہ کے روزہ کی ترغیب ہے، جب کہ وہ حدیث بیان کی جس سے عرفہ میں آپ کا افطار کرنا ثابت ہے۔ کیوں کہ وہ حدیثیں ان کی شرط کے موافق صحیح نہ ہوں گی۔ حالانکہ امام مسلم نے ابوقتادہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عرفہ کا روزہ ایک برس آگے اور ایک برس پیچھے کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور بعض نے کہا عرفہ کا روزہ حاجی کو نہ رکھنا چاہئے۔ اس خیال سے کہ کہیں ضعف نہ ہوجائے اور حج کے اعمال بجالانے میں خلل واقع ہو۔ اور اس طرح باب کی احادیث اور ان احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ ( وحیدی )
عبداللہ بن وہب نے خود یہ حدیث یحییٰ کو سنائی یا عبداللہ بن وہب کے شاگردوں نے ان کو سنائی، دونوں طرح حدیث کی روایت صحیح ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس باب میں ان حدیثوں کو ذکر نہیں کیا جن میں عرفہ کے روزہ کی ترغیب ہے، جب کہ وہ حدیث بیان کی جس سے عرفہ میں آپ کا افطار کرنا ثابت ہے۔ کیوں کہ وہ حدیثیں ان کی شرط کے موافق صحیح نہ ہوں گی۔ حالانکہ امام مسلم نے ابوقتادہ سے نکالا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عرفہ کا روزہ ایک برس آگے اور ایک برس پیچھے کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے اور بعض نے کہا عرفہ کا روزہ حاجی کو نہ رکھنا چاہئے۔ اس خیال سے کہ کہیں ضعف نہ ہوجائے اور حج کے اعمال بجالانے میں خلل واقع ہو۔ اور اس طرح باب کی احادیث اور ان احادیث میں تطبیق ہوجاتی ہے۔ ( وحیدی )