كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صَوْمِ يَوْمِ الجُمُعَةِ صحيح حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ حَدَّثَنَا أَبِي حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يَصُومَنَّ أَحَدُكُمْ يَوْمَ الْجُمُعَةِ إِلَّا يَوْمًا قَبْلَهُ أَوْ بَعْدَهُ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : جمعہ کے دن روزہ رکھنا
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے بیان کیا اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی بھی شخص جمعہ کے دن اس وقت تک روزہ نہ رکھے جب تک اس سے ایک دن پہلے یا اس کے ایک بعد روزہ نہ رکھتا ہو۔
تشریح :
مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کی جو عادت ہوتی ہے کہ ہفتے میں ایک دو دن خاص کرکے اس میں روزہ رکھتے ہیں۔ جیسے کوئی پیر جمعرات کو روزہ رکھتا ہے، کوئی پیر منگل کو، کوئی جمعرات جمعہ کو تو یہ تخصیص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ابن تین نے کہا بعض نے اسی وجہ سے ایسی تخصیص کو مکروہ رکھا ہے۔ لیکن عرفہ کے دن اور عاشور اور ایام بیض کی تخصیص تو خود حدیث سے ثابت ہے۔ حافظ نے کہا کئی ایک احادیث میں یہ وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں حالانکہ ابوداؤد اور ترمذی اور نسائی نے نکالا۔ اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم قصد کرکے پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے اور نسائی ا ور ابوداؤد نے نکالا۔ ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا، اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا اس دن اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت اٹھایا جائے جب میں روزہ سے ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ بعض لوگوں کی جو عادت ہوتی ہے کہ ہفتے میں ایک دو دن خاص کرکے اس میں روزہ رکھتے ہیں۔ جیسے کوئی پیر جمعرات کو روزہ رکھتا ہے، کوئی پیر منگل کو، کوئی جمعرات جمعہ کو تو یہ تخصیص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے۔ ابن تین نے کہا بعض نے اسی وجہ سے ایسی تخصیص کو مکروہ رکھا ہے۔ لیکن عرفہ کے دن اور عاشور اور ایام بیض کی تخصیص تو خود حدیث سے ثابت ہے۔ حافظ نے کہا کئی ایک احادیث میں یہ وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ رکھا کرتے تھے۔ مگر شاید امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک وہ حدیثیں صحیح نہیں ہیں حالانکہ ابوداؤد اور ترمذی اور نسائی نے نکالا۔ اور ابن حبان نے اس کو صحیح کہا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم قصد کرکے پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے اور نسائی ا ور ابوداؤد نے نکالا۔ ابن خزیمہ نے اس کو صحیح کہا، اسامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیر اور جمعرات کو روزہ رکھتے۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو آپ نے فرمایا اس دن اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو میں چاہتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت اٹھایا جائے جب میں روزہ سے ہوں۔