كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ الصَّوْمِ مِنْ آخِرِ الشَّهْرِ صحيح حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ عَنْ غَيْلَانَ ح و حَدَّثَنَا أَبُو النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ حَدَّثَنَا غَيْلَانُ بْنُ جَرِيرٍ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ سَأَلَهُ أَوْ سَأَلَ رَجُلًا وَعِمْرَانُ يَسْمَعُ فَقَالَ يَا أَبَا فُلَانٍ أَمَا صُمْتَ سَرَرَ هَذَا الشَّهْرِ قَالَ أَظُنُّهُ قَالَ يَعْنِي رَمَضَانَ قَالَ الرَّجُلُ لَا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ فَإِذَا أَفْطَرْتَ فَصُمْ يَوْمَيْنِ لَمْ يَقُلْ الصَّلْتُ أَظُنُّهُ يَعْنِي رَمَضَانَ قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ وَقَالَ ثَابِتٌ عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ عِمْرَانَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ سَرَرِ شَعْبَانَ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : مہینے کے آخر میں روزہ رکھنا
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے مہدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے غیلان نے ( دوسری سند ) امام بخاری نے کہا اور ہم سے ابوالنعمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے مہدی بن میمون نے، ان سے غیلان بن جریر نے، ان سے مطرف نے، ان سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا یا ( مطرف نے یہ کہا کہ ) سوال تو کسی اور نے کیا تھا لیکن وہ سن رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے ابوفلاں ! کیا تم نے اس مہینے کے آخر کے روزے رکھے؟ ابونعمان نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ راوی نے کہا کہ آپ کی مراد رمضان سے تھی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) کہتے ہیں کہ ثابت نے بیان کیا، ان سے مطرف نے، ان سے عمران رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( رمضان کے آخر کے بجائے ) شعبان کے آخر میں کا لفظ بیان کیا ( یہی صحیح ہے )
تشریح :
کیوں کہ رمضان میں تو سارے مہینے ہر کوئی روزے رکھتا ہے، بعض نے سرر کا ترجمہ مہینے کا شروع کیا ہے، بعض نے مہینے کا بیچ، بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے ڈانٹ کے طور پر ایسا فرمایا کہ تو نے شعبان کے اخیر میں تو روزے نہیں رکھے۔ کیوں کہ دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا استقبال کرنے سے منع فرمایا ہے، مگر اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ اگر یہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضا کا حکم کیوں دیتے۔ خطابی نے کہا شاید اس وجہ سے قضا کا حکم دیا کہ اس شخص نے منت مانی ہوگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منت پوری کرنے کا حکم دیا اس طرح کہ شوال میں اس کی قضا کرلے۔ بعض نے کہا اگر کوئی شعبان کے آخر میں رمضان کے استقبال کی نیت سے روزہ رکھے تو یہ مکروہ ہے۔ لیکن اگر استقبال کی نیت نہ ہو تو کچھ قباحت نہیں ہے مگر ایک حدیث میں شعبان کے نصف آخری میں روزہ رکھنے کی ممانعت بھی وارد ہے تاکہ رمضان کے لیے ضعف لاحق نہ ہو۔
کیوں کہ رمضان میں تو سارے مہینے ہر کوئی روزے رکھتا ہے، بعض نے سرر کا ترجمہ مہینے کا شروع کیا ہے، بعض نے مہینے کا بیچ، بعض نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے ڈانٹ کے طور پر ایسا فرمایا کہ تو نے شعبان کے اخیر میں تو روزے نہیں رکھے۔ کیوں کہ دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا استقبال کرنے سے منع فرمایا ہے، مگر اس میں یہ اشکال ہوتا ہے کہ اگر یہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضا کا حکم کیوں دیتے۔ خطابی نے کہا شاید اس وجہ سے قضا کا حکم دیا کہ اس شخص نے منت مانی ہوگی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منت پوری کرنے کا حکم دیا اس طرح کہ شوال میں اس کی قضا کرلے۔ بعض نے کہا اگر کوئی شعبان کے آخر میں رمضان کے استقبال کی نیت سے روزہ رکھے تو یہ مکروہ ہے۔ لیکن اگر استقبال کی نیت نہ ہو تو کچھ قباحت نہیں ہے مگر ایک حدیث میں شعبان کے نصف آخری میں روزہ رکھنے کی ممانعت بھی وارد ہے تاکہ رمضان کے لیے ضعف لاحق نہ ہو۔