‌صحيح البخاري - حدیث 1979

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صَوْمِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ الْمَكِّيَّ وَكَانَ شَاعِرًا وَكَانَ لَا يُتَّهَمُ فِي حَدِيثِهِ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّكَ لَتَصُومُ الدَّهْرَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ فَقُلْتُ نَعَمْ قَالَ إِنَّكَ إِذَا فَعَلْتَ ذَلِكَ هَجَمَتْ لَهُ الْعَيْنُ وَنَفِهَتْ لَهُ النَّفْسُ لَا صَامَ مَنْ صَامَ الدَّهْرَ صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ صَوْمُ الدَّهْرِ كُلِّهِ قُلْتُ فَإِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ قَالَ فَصُمْ صَوْمَ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام كَانَ يَصُومُ يَوْمًا وَيُفْطِرُ يَوْمًا وَلَا يَفِرُّ إِذَا لَاقَى

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1979

کتاب: روزے کے مسائل کا بیان باب : حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ ہم سے آدم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ میں نے ابوعباس مکی سے سنا، وہ شاعر تھے لیکن روایت حدیث میں ان پر کسی قسم کا اتہام نہیں تھا۔ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تو متواتر روزے رکھتا ہے اور رات بھر عبادت کرتا ہے؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اگر تو یونہی کرتا رہا تو آنکھیں دھنس جائیں گی، اور تو بے حد کمزور ہو جائے گا یہ کوئی روزہ نہیں کہ کوئی زندگی بھر ( بلاناغہ ہر روز ) روزہ رکھے۔ تین دن کا ( ہر مہینہ میں ) روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے۔ میں نے اس پر کہا کہ مجھے اس سے بھی زیادہ طاقت ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھا کر۔ آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ چھوڑ دیتے تھے او رجب دشمن کا سامنا ہوتا تو پیٹھ نہیں دکھلایا کرتے تھے۔
تشریح : شاعر مبالغہ کے عادی ہوتے ہیں جو احتیاط ثقاہت کے منافی ہے، اس لیے ابوعباس مکی کے متعلق یہ توضیح کی گئی کہ وہ شاعر ہونے کے باوجود انتہائی ثقہ تھے اور ان کے متعلق کوئی اتہام نہ تھا، لہٰذا ان کی روایات سب قابل قبول ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و نقل الترمذی عن بعض اہل العلم انہ اشق الصیام و یامن مع ذلک غالبا من تفویت الحقوق کما تقدمت الاشارۃ الیہ فیما تقدم قریبا فی حق داود و لا یفر اذا لاقی لان من اسباب الفرار ضعف الجسد و لا شک ان سرد الصوم ینہکہ و علی ذلک یحمل قول ابن مسعود فیما رواہ سعید بن منصور باسناد صحیح عنہ ان قیل لہ انک لتقل الصیام فقال انی اخاف ان یضعفنی عن القراۃ و القراۃ احب الی من الصیام الخیعنی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض سے نقل کیا ہے کہ صیام داؤد علیہ السلام اگرچہ مشکل ترین روز ہ ہے مگر اس میں حقوق واجب کے فوت ہونے کا ڈر نہیں جیسا کہ پیچھے داؤد علیہ السلام کے متعلق اشارہ گزر چکا ہے ان کی شان یہ بتلائی گئی کہ اس قدر روزہ رکھنے کے باوجود وہ جہاد میں دشمن سے مقابلہ کے وقت بھاگتے نہیں تھے۔ یعنی اس قدر روزہ رکھنے کے باوجود ان کے جسم میں کوئی کمزروی نہ تھی حالانکہ اس طرح روزے رکھنا جسم کو کمزور کردیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا بھی یہی مطلب ہے۔ ان سے کہا گیا تھا کہ آپ نفل روزہ کم رکھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں میں کثرت صوم سے اس قدر کمزور نہ ہو جاؤں کہ میری قرات کا سلسلہ رک جائے حالانکہ قرات میرے لیے روزہ سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صوم داؤد علیہ السلام بہترین روزہ ہے۔ جو لوگ بکثرت روزہ رکھنے کے خواہش مند ہوں ان کے لیے ان ہی کی اتباع مناسب ہے۔ شاعر مبالغہ کے عادی ہوتے ہیں جو احتیاط ثقاہت کے منافی ہے، اس لیے ابوعباس مکی کے متعلق یہ توضیح کی گئی کہ وہ شاعر ہونے کے باوجود انتہائی ثقہ تھے اور ان کے متعلق کوئی اتہام نہ تھا، لہٰذا ان کی روایات سب قابل قبول ہیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : و نقل الترمذی عن بعض اہل العلم انہ اشق الصیام و یامن مع ذلک غالبا من تفویت الحقوق کما تقدمت الاشارۃ الیہ فیما تقدم قریبا فی حق داود و لا یفر اذا لاقی لان من اسباب الفرار ضعف الجسد و لا شک ان سرد الصوم ینہکہ و علی ذلک یحمل قول ابن مسعود فیما رواہ سعید بن منصور باسناد صحیح عنہ ان قیل لہ انک لتقل الصیام فقال انی اخاف ان یضعفنی عن القراۃ و القراۃ احب الی من الصیام الخیعنی ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے بعض سے نقل کیا ہے کہ صیام داؤد علیہ السلام اگرچہ مشکل ترین روز ہ ہے مگر اس میں حقوق واجب کے فوت ہونے کا ڈر نہیں جیسا کہ پیچھے داؤد علیہ السلام کے متعلق اشارہ گزر چکا ہے ان کی شان یہ بتلائی گئی کہ اس قدر روزہ رکھنے کے باوجود وہ جہاد میں دشمن سے مقابلہ کے وقت بھاگتے نہیں تھے۔ یعنی اس قدر روزہ رکھنے کے باوجود ان کے جسم میں کوئی کمزروی نہ تھی حالانکہ اس طرح روزے رکھنا جسم کو کمزور کردیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کا بھی یہی مطلب ہے۔ ان سے کہا گیا تھا کہ آپ نفل روزہ کم رکھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں میں کثرت صوم سے اس قدر کمزور نہ ہو جاؤں کہ میری قرات کا سلسلہ رک جائے حالانکہ قرات میرے لیے روزہ سے بھی زیادہ محبوب ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ صوم داؤد علیہ السلام بہترین روزہ ہے۔ جو لوگ بکثرت روزہ رکھنے کے خواہش مند ہوں ان کے لیے ان ہی کی اتباع مناسب ہے۔