‌صحيح البخاري - حدیث 1960

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ صَوْمِ الصِّبْيَانِ صحيح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ ذَكْوَانَ عَنْ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذٍ قَالَتْ أَرْسَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ عَاشُورَاءَ إِلَى قُرَى الْأَنْصَارِ مَنْ أَصْبَحَ مُفْطِرًا فَلْيُتِمَّ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ وَمَنْ أَصْبَحَ صَائِمًا فَليَصُمْ قَالَتْ فَكُنَّا نَصُومُهُ بَعْدُ وَنُصَوِّمُ صِبْيَانَنَا وَنَجْعَلُ لَهُمْ اللُّعْبَةَ مِنْ الْعِهْنِ فَإِذَا بَكَى أَحَدُهُمْ عَلَى الطَّعَامِ أَعْطَيْنَاهُ ذَاكَ حَتَّى يَكُونَ عِنْدَ الْإِفْطَارِ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1960

کتاب: روزے کے مسائل کا بیان باب : بچوں کے روزہ رکھنے کا بیان ہم سے مسدد نے بیان کیا، ان سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، ان سے خالد بن ذکوان نے بیان کیا، ان سے ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عاشورہ کی صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار کے محلوں میں کہلا بھیجا کہ صبح جس نے کھا پی لیا ہو وہ دن کا باقی حصہ ( روزہ دار کی طرح ) پورے کرے اور جس نے کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ روزے سے رہے۔ ربیع نے کہا کہ پھر بعد میں بھی ( رمضان کے روزے کی فرضیت کے بعد ) ہم اس دن روزہ رکھتے اور اپنے بچوں سے بھی رکھواتے تھے۔ انہیں ہم اون کا ایک کھلونا دے کر بہلائے رکھتے۔ جب کوئی کھانے کے لیے روتا تو وہی دے دیتے، یہاں تک کہ افطار کا وقت آجاتا۔
تشریح : اس نشہ باز نے رمضان میں شراب پی رکھی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ معلوم کرکے فرمایا کہ ارے کم بخت ! تو نے یہ کیا حرکت کی ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں۔ پھر آپ نے اس کو اسی کوڑے مارے اور شام کے ملک میں جلاوطن کر دیا۔ اس کو سعید بن منصور اور بغوی نے جعدیات میں نکالا ہے۔ اس واقعہ کو نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد صرف بچوں کو روزہ رکھنے کی مشروعیت بیان کرنا ہے۔ جس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پس مناسب ہے کہ بچوں کو بھی روزہ کی عادت ڈلوائی جائے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و فی الحدیث حجۃ علی مشروعیۃ تمرین الصبیان علی الصیام کما تقدم لان من کان فی مثل السن الذی ذکر فی ہذا الحدیث فہو غیر مکلف یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس با ت پر کہ بطور مشق بچوں سے روزہ رکھوانا مشروع ہے، اگرچہ اس عمر میں وہ شرع کے مکلف نہیں ہیں۔ اس نشہ باز نے رمضان میں شراب پی رکھی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ معلوم کرکے فرمایا کہ ارے کم بخت ! تو نے یہ کیا حرکت کی ہمارے تو بچے بھی روزہ دار ہیں۔ پھر آپ نے اس کو اسی کوڑے مارے اور شام کے ملک میں جلاوطن کر دیا۔ اس کو سعید بن منصور اور بغوی نے جعدیات میں نکالا ہے۔ اس واقعہ کو نقل کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد صرف بچوں کو روزہ رکھنے کی مشروعیت بیان کرنا ہے۔ جس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا پس مناسب ہے کہ بچوں کو بھی روزہ کی عادت ڈلوائی جائے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں و فی الحدیث حجۃ علی مشروعیۃ تمرین الصبیان علی الصیام کما تقدم لان من کان فی مثل السن الذی ذکر فی ہذا الحدیث فہو غیر مکلف یعنی اس حدیث میں دلیل ہے اس با ت پر کہ بطور مشق بچوں سے روزہ رکھوانا مشروع ہے، اگرچہ اس عمر میں وہ شرع کے مکلف نہیں ہیں۔