‌صحيح البخاري - حدیث 1959

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ إِذَا أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ ثُمَّ طَلَعَتِ الشَّمْسُ صحيح حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ عَنْ فَاطِمَةَ عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَتْ أَفْطَرْنَا عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ غَيْمٍ ثُمَّ طَلَعَتْ الشَّمْسُ قِيلَ لِهِشَامٍ فَأُمِرُوا بِالْقَضَاءِ قَالَ لَا بُدَّ مِنْ قَضَاءٍ وَقَالَ مَعْمَرٌ سَمِعْتُ هِشَامًا لَا أَدْرِي أَقَضَوْا أَمْ لَا

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1959

کتاب: روزے کے مسائل کا بیان باب : ایک شخص نے سورج غروب سمجھ کر روزہ کھول لیا اس کے بعد سورج نکل آیا ہم سے عبداللہ بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے فاطمہ بنت منذر نے او ران سے اسماءبنت ابی بکر رضی اللہ عنہ نے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ابر تھا۔ ہم نے جب افطار کر لیا تو سورج نکل آیا۔ اس پر ہشام ( راوی حدیث ) سے کہا گیا کہ پھر انہیں اس روزے کی قضا کا حکم ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتلایا کہ قضا کے سوا اور چارئہ کار ہی کیا تھا؟ اور معمر نے کہا کہ میں نے ہشام سے یوں سنا ” مجھے معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے قضا کی تھی یا نہیں۔ “
تشریح : اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں قضا لازم ہوگی اور کفارہ نہ ہوگا اور اس کے سوا یہ بھی ضروری ہے کہ جب تک غروب نہ ہو امساک کرے یعنی کچھ کھائے پیے نہیں۔ قسطلانی نے بعض حنابلہ سے یہ نقل کیا کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر کہ رات ہو گئی افطار کرلے پھر معلوم ہوا کہ دن تھا تو اس پر قضا نہیں ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں۔ میں کہتا ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ ایسی صورت میں قضا بھی نہیں ہے، اور مجاہد اور حسن سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حافظ نے کہا کہ ایک روایت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسی ہی ہے اور ابن خزیمہ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور معمر کی تعلیق کو عبد بن حمید نے وصل کیا۔ یہ روایت پہلی روایت کے خلاف ہے اور شاید پہلے ہشام کو اس میں شک رہا ہو پھر یقین ہو گیا ہو کہ انہوں نے قضا کی۔ اور ابواسامہ نے ان کو قضا کا یقین ہوجانے کے بعد روایت کی ہو، اس صورت میں تعارض نہ رہے گا۔ ابن خزیمہ نے کہا ہشام نے جو قضا کرنا بیان کیا اس کی سند ذکر نہیں کی، اس لیے میرے نزدیک قضا نہ ہونے کی ترجیح ہے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ہم قضا نہیں کرنے کے نہ ہم کو گناہ ہوا اور عبدالرزاق اور سعید بن منصور نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ قضا کرنا چاہئے۔ حافظ نے کہا کہ حاصل کلام یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ ( وحیدی ) ظاہر حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ قضا لازم ہے واللہ اعلم اس پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے کہ ایسی صورت میں قضا لازم ہوگی اور کفارہ نہ ہوگا اور اس کے سوا یہ بھی ضروری ہے کہ جب تک غروب نہ ہو امساک کرے یعنی کچھ کھائے پیے نہیں۔ قسطلانی نے بعض حنابلہ سے یہ نقل کیا کہ اگر کوئی شخص یہ سمجھ کر کہ رات ہو گئی افطار کرلے پھر معلوم ہوا کہ دن تھا تو اس پر قضا نہیں ہے لیکن یہ قول صحیح نہیں۔ میں کہتا ہوں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ منقول ہے کہ ایسی صورت میں قضا بھی نہیں ہے، اور مجاہد اور حسن سے بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حافظ نے کہا کہ ایک روایت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ایسی ہی ہے اور ابن خزیمہ نے اسی کو اختیار کیا ہے اور معمر کی تعلیق کو عبد بن حمید نے وصل کیا۔ یہ روایت پہلی روایت کے خلاف ہے اور شاید پہلے ہشام کو اس میں شک رہا ہو پھر یقین ہو گیا ہو کہ انہوں نے قضا کی۔ اور ابواسامہ نے ان کو قضا کا یقین ہوجانے کے بعد روایت کی ہو، اس صورت میں تعارض نہ رہے گا۔ ابن خزیمہ نے کہا ہشام نے جو قضا کرنا بیان کیا اس کی سند ذکر نہیں کی، اس لیے میرے نزدیک قضا نہ ہونے کی ترجیح ہے اور ابن ابی شیبہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ ہم قضا نہیں کرنے کے نہ ہم کو گناہ ہوا اور عبدالرزاق اور سعید بن منصور نے ان سے یہ نقل کیا ہے کہ قضا کرنا چاہئے۔ حافظ نے کہا کہ حاصل کلام یہ ہوا کہ یہ مسئلہ اختلافی ہے۔ ( وحیدی ) ظاہر حدیث کا مفہوم یہی ہے کہ قضا لازم ہے واللہ اعلم