كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صَوْمٌ صحيح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مُوسَى بْنِ أَعْيَنَ حَدَّثَنَا أَبِي عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي جَعْفَرٍ أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرٍ حَدَّثَهُ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ صِيَامٌ صَامَ عَنْهُ وَلِيُّهُ تَابَعَهُ ابْنُ وَهْبٍ عَنْ عَمْرٍو وَرَوَاهُ يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ عَنْ ابْنِ أَبِي جَعْفَرٍ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں
ہم سے محمد بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن موسیٰ ابن اعین نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ان کے والد نے بیان کیا، ان سے عمرو بن حارث نے، ان سے عبیداللہ بن ابی جعفر نے، ان سے محمد بن جعفر نے کہا، ان سے عروہ نے بیان کیا اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے واجب ہوں تو اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھ دے، موسیٰ کے ساتھ اس حدیث کو ابن وہب نے بھی عمرو سے روایت کیا او ریحییٰ بن ایوب سختیانی نے بھی ابن ابی جعفر سے۔
تشریح :
اہل حدیث کا مذہب باب کی حدیث پر ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے اور شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔ امام شافعی سے بیہقی نے بہ سند صحیح روایت کیا کہ جب کوئی صحیح حدیث میرے قول کے خلا ف مل جائے تو اس پر عمل کرو اور میری تقلید نہ کرو، امام مالک اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہما نے اس حدیث صحیح کے برخلاف یہ اختیار کیا کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ ( وحیدی )
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی :
مرنے والے کی طرف سے روزہ رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں ایک میت کے اعتبار سے کیوں کہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں ان کو اسی بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں سے کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا اس سے فوت ہو گئی ہے اس لیے وہ نفوس رنج و الم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ میں یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں اس شخص کی قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کئے مر گیا تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہئے۔ ( حجۃ اللہ البالغہ )
اہل حدیث کا مذہب باب کی حدیث پر ہے کہ اس کا ولی اس کی طرف سے روزے رکھے اور شافعی کا قول قدیم بھی یہی ہے۔ امام شافعی سے بیہقی نے بہ سند صحیح روایت کیا کہ جب کوئی صحیح حدیث میرے قول کے خلا ف مل جائے تو اس پر عمل کرو اور میری تقلید نہ کرو، امام مالک اور ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہما نے اس حدیث صحیح کے برخلاف یہ اختیار کیا کہ کوئی کسی کی طرف سے روزہ نہیں رکھ سکتا۔ ( وحیدی )
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی :
مرنے والے کی طرف سے روزہ رکھنے کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس میں دو بھید ہیں ایک میت کے اعتبار سے کیوں کہ بہت سے نفوس جو اپنے ابدان سے مفارقت کرتے ہیں ان کو اسی بات کا ادراک رہتا ہے کہ عبادت میں سے کوئی عبادت جو ان پر فرض تھی اور اس کے ترک کرنے سے ان سے مواخذہ کیا جائے گا اس سے فوت ہو گئی ہے اس لیے وہ نفوس رنج و الم کی حالت میں رہتے ہیں اور اس سبب سے ان پر وحشت کا دروازہ کھل جاتا ہے ایسے وقت میں ان پر بڑی شفقت یہ ہے کہ لوگوں میں سے جو سب سے زیادہ اس میت کا قریبی ہے اس کا سا عمل کرے اور اس بات کا قصد کرے کہ میں یہ عمل اس کی طرف سے کرتا ہوں اس شخص کی قرابتی کو مفید ثابت ہوتا ہے یا وہ شخص کوئی اور دوسرا کام مثل اسی کام کے کرتا ہے اور ایسا ہی اگر ایک شخص نے صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تھا مگر وہ بغیر صدقہ کئے مر گیا تو اس کے وارث کو اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہئے۔ ( حجۃ اللہ البالغہ )