‌صحيح البخاري - حدیث 1950

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابٌ: مَتَى يُقْضَى قَضَاءُ رَمَضَانَ صحيح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ أَبِي سَلَمَةَ قَالَ سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ كَانَ يَكُونُ عَلَيَّ الصَّوْمُ مِنْ رَمَضَانَ فَمَا أَسْتَطِيعُ أَنْ أَقْضِيَ إِلَّا فِي شَعْبَانَ قَالَ يَحْيَى الشُّغْلُ مِنْ النَّبِيِّ أَوْ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1950

کتاب: روزے کے مسائل کا بیان باب : رمضان کے قضا روزے کب رکھے جائیں۔ ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر نے بیان کیا، ان سے یحییٰ بن ابی کثیر نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتیں کہ رمضان کا روزہ مجھ سے چھوٹ جاتا۔ شعبان سے پہلے اس کی قضا کی توفیق نہ ہوتی۔ یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا۔
تشریح : یہاں جو قول ابراہیم نخعی کا اوپر مذکور ہوا ہے اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا مگر جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین سے یہ مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان کی قضا نہ رکھی یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا تو وہ قضا بھی رکھے اور ہر روزے کے بدلے فدیہ بھی دے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور کے خلاف ابراہیم نخعی کے قول پر عمل کیا اور فدیہ دینا ضروری نہیں رکھا، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شاذ روایت یہ بھی ہے کہ اگر رمضان کی قضا نہ رکھے اور دوسرا رمضان آن پہنچا تو دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور پہلے رمضان کے ہر روزے کے بدل فدیہ دے اور روزہ رکھنا ضروری نہیں، اس کو عبدالرزاق اور ابن منذر نے نکالا۔ یحییٰ بن سعید نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف مروی ہے اور قتادہ سے یہ منقول ہے کہ جس نے رمضان کی قضا میں افطار کر ڈالا تو وہ ایک روزہ کے بدل دو روزے رکھے۔ اب جمہور علماءکے نزدیک رمضان کی قضا پے در پے رکھنا ضروری نہیں الگ الگ بھی رکھ سکتا ہے، یعنی متفرق طور سے اور ابن منذر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا کہ پے در پے رکھنا واجب ہے، بعض اہل ظاہر کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آیت اتری تھی فعدۃ من ایام اخر متتابعات ابن ابی کعب کی بھی قرات یوں ہی ہے۔ ( وحیدی ) مگر اب قرات مشہورہ میں یہ لفظ نہیں ہیں اور اب اسی قرات کو ترجیح حاصل ہے۔ یہاں جو قول ابراہیم نخعی کا اوپر مذکور ہوا ہے اس کو سعید بن منصور نے وصل کیا مگر جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین سے یہ مروی ہے کہ اگر کسی نے رمضان کی قضا نہ رکھی یہاں تک کہ دوسرا رمضان آگیا تو وہ قضا بھی رکھے اور ہر روزے کے بدلے فدیہ بھی دے۔ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے جمہور کے خلاف ابراہیم نخعی کے قول پر عمل کیا اور فدیہ دینا ضروری نہیں رکھا، ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شاذ روایت یہ بھی ہے کہ اگر رمضان کی قضا نہ رکھے اور دوسرا رمضان آن پہنچا تو دوسرے رمضان کے روزے رکھے اور پہلے رمضان کے ہر روزے کے بدل فدیہ دے اور روزہ رکھنا ضروری نہیں، اس کو عبدالرزاق اور ابن منذر نے نکالا۔ یحییٰ بن سعید نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس کے خلاف مروی ہے اور قتادہ سے یہ منقول ہے کہ جس نے رمضان کی قضا میں افطار کر ڈالا تو وہ ایک روزہ کے بدل دو روزے رکھے۔ اب جمہور علماءکے نزدیک رمضان کی قضا پے در پے رکھنا ضروری نہیں الگ الگ بھی رکھ سکتا ہے، یعنی متفرق طور سے اور ابن منذر نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کیا کہ پے در پے رکھنا واجب ہے، بعض اہل ظاہر کا بھی یہی قول ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ آیت اتری تھی فعدۃ من ایام اخر متتابعات ابن ابی کعب کی بھی قرات یوں ہی ہے۔ ( وحیدی ) مگر اب قرات مشہورہ میں یہ لفظ نہیں ہیں اور اب اسی قرات کو ترجیح حاصل ہے۔