كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ لِمَنْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ وَاشْتَدَّ الحَرُّ صحيح حَدَّثَنَا آدَمُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيُّ قَالَ سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَرَأَى زِحَامًا وَرَجُلًا قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ فَقَالَ مَا هَذَا فَقَالُوا صَائِمٌ فَقَالَ لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ
کتاب: روزے کے مسائل کا بیان
باب : نبی کریم ﷺکا فرمانا اس شخص کے لیے جس پر شدت گرمی کی وجہ سے سایہ کر دیا گیا تھا کہ
ہم سے آدم بن ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے محمد بن عبدالرحمن انصاری نے بیان کیا، کہا کہ میں نے محمد بن عمرو بن حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے سنا اور انہوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر ( غزوہ فتح ) میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک شخص پر لوگوں نے سایہ کر رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا کہ ایک روزہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سفر میں رو زہ رکھنا اچھا کام نہیں ہے۔
تشریح :
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی جو سفر میں افطار ضروری سمجھتے ہیں۔ مخالفین یہ کہتے ہیں کہ مراد اس سے وہی ہے جب سفر میں روزے سے تکلیف ہوتی ہو اس صورت میں تو بالاتفاق افطار افضل ہے۔
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی جو سفر میں افطار ضروری سمجھتے ہیں۔ مخالفین یہ کہتے ہیں کہ مراد اس سے وہی ہے جب سفر میں روزے سے تکلیف ہوتی ہو اس صورت میں تو بالاتفاق افطار افضل ہے۔