‌صحيح البخاري - حدیث 1937

كِتَابُ الصَّوْمِ بَابُ المُجَامِعِ فِي رَمَضَانَ، هَلْ يُطْعِمُ أَهْلَهُ مِنَ الكَفَّارَةِ إِذَا كَانُوا مَحَاوِيجَ صحيح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ إِنَّ الْأَخِرَ وَقَعَ عَلَى امْرَأَتِهِ فِي رَمَضَانَ فَقَالَ أَتَجِدُ مَا تُحَرِّرُ رَقَبَةً قَالَ لَا قَالَ فَتَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ قَالَ لَا قَالَ أَفَتَجِدُ مَا تُطْعِمُ بِهِ سِتِّينَ مِسْكِينًا قَالَ لَا قَالَ فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ وَهُوَ الزَّبِيلُ قَالَ أَطْعِمْ هَذَا عَنْكَ قَالَ عَلَى أَحْوَجَ مِنَّا مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ مِنَّا قَالَ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 1937

کتاب: روزے کے مسائل کا بیان باب : رمضان میں اپنی بیوی کے ساتھ قصداً ہم بستر ہونے والا شخص کیا کرے؟ ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے زہری نے، ان سے حمید بن عبدالرحمن نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یہ بدنصیب رمضان میں اپنی بیوی سے جماع کر بیٹھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس اتنی طاقت نہیں ہے کہ ایک غلام آزاد کرسکو؟ اس نے کہا کہ نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کیا تم پے در پے دو مہینے کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے کہا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے اندر اتنی طاقت ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکو؟ اب بھی اس کا جواب نفی میں تھا۔ راوی نے بیان کیا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک تھیلا لایا گیا جس میں کھجوریں تھیں ” عرق زنبیل کو کہتے ہیں “ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے لے جا اور اپنی طرف سے ( محتاجوں کو ) کھلادے، اس شخص نے کہا میں اپنے سے بھی زیادہ محتاج کو حالانکہ دو میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ محتاج نہیں آپ نے فرمایا کہ پھر جا اپنے گھر والوں ہی کو کھلا دے۔
تشریح : اس سے بعض نے یہ نکالا کہ مفلس پر سے کفارہ ساقط ہو جاتا ہے اور جمہور کے نزدیک مفلسی کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا، اب رہا اپنے گھر والوں کو کھلانا تو زہری نے کہا یہ اس مرد کے ساتھ خاص تھا بعض نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے اب اس میں اختلاف ہے کہ جس روزے کا کفارہ دے اس کی قضا بھی لازم ہے یا نہیں۔ شافعی اور اکثر علماءکے نزدیک قضاءلازم نہیں اور اوزاعی نے کہا اگر کفارہ میں دو مہینے کے روزے رکھے تب قضا لازم نہیں۔ دوسرا کوئی کفارہ دے تو قضا لازم ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔ ( وحیدی ) اس سے بعض نے یہ نکالا کہ مفلس پر سے کفارہ ساقط ہو جاتا ہے اور جمہور کے نزدیک مفلسی کی وجہ سے کفارہ ساقط نہیں ہوتا، اب رہا اپنے گھر والوں کو کھلانا تو زہری نے کہا یہ اس مرد کے ساتھ خاص تھا بعض نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے اب اس میں اختلاف ہے کہ جس روزے کا کفارہ دے اس کی قضا بھی لازم ہے یا نہیں۔ شافعی اور اکثر علماءکے نزدیک قضاءلازم نہیں اور اوزاعی نے کہا اگر کفارہ میں دو مہینے کے روزے رکھے تب قضا لازم نہیں۔ دوسرا کوئی کفارہ دے تو قضا لازم ہے اور حنفیہ کے نزدیک ہر حال میں قضا اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔ ( وحیدی )